مچھلی پکڑنا سیکھائی
تعاون کی بہترین صورت
تحریر: محمد عزیر گل
*شریعہ اینڈ بزنس*
اکرام اللہ ایک سخی شخص ہے وہ اپنی آمدن میں سے فرضی صدقات کے علاوہ اللہ کے راستے میں ایک متعین شرح خرچ کرتا ہے ، لیکن اس کے دینے کا طریقہ بہت مختلف ہے ، وہ کسی شخص کو پیسے نہیں دیتا اور نہ ہی راشن وغیرہ دیتا ہے ، بلکہ وہ لوگوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کرواتا ہے ہے ، اگر ضرورت مند کسی قسم کا تجربہ رکھتا ہو تو اس کو اس کے ساتھ ہی وابستہ کردیتا ہے ، وگرنہ وہ پہلے کام کو سیکھنے کا کہتا ہے اور جب وہ اس میں مہارت حاصل کرلیتا ہے تو اس کے کاروبار کو شروع کروانے میں مالی معاونت کرتا ہے ، اس کے لیے باقاعدہ اس کی ایک ٹیم ہے ، جو اس کے تمام رفاہی کاموں کو دیکھتی ہے ، کسی نے اکرام اللہ سے اس کی وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ اس کی دو وجوہات ہیں ، پہلی وجہ یہ ہے کہ پہلے پہل میں پیسے اور راشن تقسیم کرتا تھا ، لوگ میرے اپنے ضروریات بتا کر جاتے اور میں اپنی استعداد کے مطابق ان کی امداد کرتا تھا ، لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ بہت سارے افراد جو پہلےمجبور تھے ، کام کرتے تھے ، وہ کوشش کرتے تھے ، اب وہ کام پر نہیں جاتے بلکہ اس امید پر کہ راشن مل جائے گا وغیرہ وہ مہینے کے چند دن ہی مزدوری کرتے اور باقی دن آرام کرتے ، یہ بات میرے لیے کسی بھی طور قابل قبول نہ تھی ، اس لیے میں اب لوگوں کے طریقے کو بدلا ہے ، دوسری وجہ آج کی مہنگائی اور بے روز گاری ہے ، مہنگائی کی وجہ سے آج لوگ میٹرک یا ایف ایس سی کے بعد تعلیم کو خیر باد کہہ دیتےہیں اور نوکری کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اور در بدر کی ٹھکریں کھاتے ہیں ، اپنے قیمتی ترین وقت کو ضائع کرتے ہیں ، جبکہ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ آج تعلیم یافتہ طبقہ بہت زیادہ بے روز گار ہے ، اس لیے میں لوگوں کو کاروبار کی طرف متوجہ کرنے کی چھوٹی سی کوشش کر رہا ہوں ، کیونکہ ایک چینی کہاوت پڑھ رکھی ہے کہ کہ نیکی یہ نہیں ہے کہ آپ کسی کو مچھلی پکڑ کر کھلا دیں ، بلکہ بڑی نیکی یہ ہے کہ آپ اس کو مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھا دیں ، تاکہ اس کی زندگی بھری کی محتاجی ختم ہو جائے ، لہذا میں کوشش کر رہا ہوں کہ لوگوں کی زندگی بھر کا مسئلہ حل کیا جائے اور الحمد للہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مہنگائی اور بے روز گاری میں مقابلے کی فضا ہے ، ایک طرف مہنگائی کی شرح میں ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف بے روز گاری کی شرح میں بے پنا اضافہ ہورہا ہے ، بڑی بڑی کمپنیاں پانے ملازمین کو فارغ کر رہی ہیں ، تجربہ کارافراد کو دوسرے جگہ پر کام کی تلاش ہے ، باوجود تجربے اور صلاحیتوں کے وہ جاب کے لیے بھٹک رہے ہیں ، ایسے حالات میں نوخیز نوجوانوں کے لیے کس قدر پریشان کن حالات ہوں گے ، آپ اپنے ارد گرد نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں ، جو اپنے وقت کو سوشل میڈیا کے استعمال میں ضائع کررہی ہے اور اس انتظار میں کہ فلاں طرف سی وی جمع کروا رکھی ہے ، وہاں سے بلاوا آئے گا ،صرف اسی امید کو بہانہ بنا کر اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر رہے ہیں۔
اس وقت مخیر حضرات کو اس بات کی طرف متوجہ کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ایسے حالات میں اپنے رفاحی کاموں میں اس کو ترجیح دیں کہ لوگ کو چھوٹی چھوٹی ضروریات پوری کرنے کے بجائے ، اس کے سوال کرنے والے کا حل تلاش کریں ، جس کا ثبوت ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ سے بھی ملتا ہے کہ آپ نے ایک سوال کرنے والے کو حکم دیا کہ اپنے گھر سے پیالہ اور چادر لاو اس کو خود فروخت کیا اور اس کے ذریعے اس کی وقتی ضرورت کو پورا کیا اور آئندہ کے لیے ایک کلہاڑی کا انتظام کیا اور فرمایا کہ اپنے روزگار کے لیےنکل پڑو اور پندرہ دن تک نظر نہ آنا اور ایسا ہی ہوا وہ صحابی پندہ دنوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی خوشحالی کا تذکرہ کیا ، لہذا اس وقت اس سنت کو زندہ کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے ، یقینا سو شہیدوں کا ثواب ملے ۔
#uzairgull
#muhammaduzairgull
#عزیرگل
#محمدعزیرگل
#عزیرگل_شورکوٹی