تدفین کے29سال بعدبھی کفن سلامت
تحریر۔۔ڈاکٹرعمرفاروق احرار
وہ محتر م ہستی جن کی ولادت سے قبل اُن کی والدہ کو قرآن وحدیث کے تحفے ملنے کی بشارت ملی۔وہ محترم شخصیت جو ابھی بارہ برس کی معصوم کلی تھی کہ جسے فارسی میں نعت رسول مقبول لکھنے کا شرف حاصل ہوا۔وہ خوش نصیب کہ جنہیں اپنے استادحضرت مولاناخیرمحمدجالندھریؒ(خلیفہ مجازحکیم الامت مولانااشرف علی تھانویؒ)”فصیح البیان“لکھاکرتے تھے۔وہ خوش بخت کہ شیخ التفسیرحضرت مولانااحمدعلی لاہوریؒ نے جن کی خطاب کے بعدیہ کہہ کرتقریرنہ کی کہ ”شاہ جی کی تقریرکے بعداب میری تقریرکی ضرورت نہیں رہی۔“مولاناسیدابوذربخاری ابھی تیس برس کے تھے کہ حکیم الاسلام مولاناقاری محمدطیب مہتمم دارالعلوم دیوبندنے اُنہیں ”اپنے عہدکا ”اسماء الرجال کا امام“قراردیا۔پینتیس برس کے ہوئے تو اپنے وقت کی عظیم روحانی شخصیت قطب الاقطاب حضرت شاہ عبدالقادررائیپوریؒ اوراپنے والدماجدحضرت امیرشریعت مولاناسیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒسے خلافت کی خلعتیں پائی۔اپنے عظیم والدگرامی حضرت امیرشریعتؒ کی وفات کے بعدمجاہدختم نبوت مولانامحمدعلی جالندھریؒ،حافظ الحدیث مولانامحمدعبداللہ درخواستیؒ اورمفکراسلام مولانامفتی محمودؒنے اُن کے سرپر حضرت امیرشریعت کی جانشینی کی دستاررکھی۔خواجہء خواجگان حضرت مولاناخان محمدؒنے اِس عالی مرتبت کی بابت فرمایاکہ ”اُن کی علمی وجاہت اوررُوحانی عظمت بے مثال ہے۔“خطیب حرم مولانامحمدمکی حجازی نے فرمایاکہ ”وہ صحیح معنوں میں حضرت امیرشریعت کے جانشین تھے۔“حضرت مولاناعبدالحفیظ مکیؒ نے انہیں علماء حق کی آبروفرمایا۔مناظراسلام مولاناعبدالستارتونسویؒ اورحضر ت مولانامحمدیوسف لدھیانویؒکا کہناتھاکہ وہ اہل سنت کے بے باک محقق،ترجمان اورعظیم دینی مفکرتھے۔ممتازسیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان نے شاہ جی کو ایک حق گو عالم دین اورامیرشریعت کی نشانی سے تعبیرکیاتو سابق امیرجماعت اسلامی قاضی حسین احمدمرحوم نے اُنہیں اپنے اسلاف کی سچی تصویرجاناتھا۔
حضرت مولاناسیدابومعاویہ ابوذربخاری ؒوہ خوش بخت انسان تھے،جنہیں اپنے وقت کے عظیم دینی وسیاسی رہنماؤ ں کو دیکھنے اوربعض کی صحبتوں سے فیض یاب ہونے کے مواقع میسرآئے۔مولاناحسین احمدمدنی،مولاناابولکلام آزاد،مولانااحمدعلی لاہوری جیسے بزرگوں کی زیارت سے آنکھیں ٹھنڈی کیں۔مولانامفتی محمودؒ،مولاناعبیداللہ انورؒاورحضرت سیدنفیس الحسینیؒ سے برسوں صحبتیں رہیں۔وہ حضرت امیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کے سب سے بڑے فرزندتھے۔اس عالی نسبی کے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی دینی وجاہت،علمی ثقاہت اورمحققانہ استنادمیں الگ پہچان اورشناخت پیداکی۔سیرت،فن اسماء الرجال،علم لغت،تاریخ،شعروادب اوربیان وخطابت آ پ کی جولان گاہ تھے۔وسیع المطالعہ تھے۔کئی کئی گھنٹے تقریرفرماتے۔آپ وہ پہلے آدمی ہیں،جنہوں نے تحریک تحفظ ناموس صحابہ کا اجراکرکے پہلی مرتبہ امیرالمومنین سیدنامعاویہ ؓکی یادمیں ”یومِ معاویہ“منانے کی داغ بیل ڈالی۔جس کی خاطراُنہیں جیل کی صعوبتوں سے بھی گزرناپڑا،مگر وہ چٹان کی مانندثابت قدم رہے اوراصحابِ رسول کے تحفظ کا پرچم ہمیشہ بلندرکھا۔
مولاناسیدابوذربخاریؒ کو یہ اعزازبھی حاصل ہے کہ1951ء علماء کرام کے متفقہ تئیس نکات میں تیئسواں نکتہ یعنی قادیانیوں کو اقلیت قراردیاجانا،آپ ہی کی تجویزپر علامہ سیدسلیمان ندوی نے شامل کیاتھا۔1953ء کی تحریک ختم نبوت میں جب مرکزی قیادت گرفتارکرلی گئی تو مولاناغلام غوث ہزاروی کے ساتھ آپ ہی وہ دوسری شخصیت تھے،جنہوں نے مجلس عمل کے حکم پر روپوش رہ کرتحریک کو زندہ رکھا اوراسے برگ وبارمہیاکیے۔یہی وجہ تھی کہ آپ کو گولی مارنے کا حکم جاری کیاگیاتھا۔بعدازاں 1974ء میں تحریک ختم نبوت کے صف اول کے قائدین میں آپ کا شمارہوا،اوراکابرواصاغرکی بے شمارقربانیوں کے نتیجہ میں منکرین ختم نبوت اپنے انجام کو پہنچے۔جس طرح مرزائیوں کے مرکزقادیان میں حضرت امیرشریعت کی قیادت میں مجلس احراراسلام نے فاتحانہ قدم رکھا، جامع مسجد احرار،جامع مسجدختم نبوت اورمدرسہ کی بنیادرکھی۔اسی طرح فروری 1976ء میں مولاناسیدابوذربخاریؒ کی سیادت میں مجلس احرارنے ربوہ(چناب نگر) میں داخل ہوکرمسلمانوں کی پہلی مسجد”جامع مسجداحرار“کا سنگ بنیادرکھا۔
ایک مرتبہ جب سابق وزیرخارجہ سرظفراللہ خان قادیانی نے کہاکہ ”اب کہاں ہے،عطاء اللہ شاہ بخاری؟“تو آغاشورش کاشمیری نے اپنے جریدہ ہفت روزہ”چٹان“کے سرورق پر مولاناسیدابوذربخاریؒ کی تصویرلگاکرلکھاتھاکہ
”یہ ہیں سیدعطاءاللہ شاہ بخاری۔“
قربانی وایثاراورفقرواستغنیٰ خانوادۂ امیرشریعت کی روایت رہی ہے۔آپ نے اس روایت کوکبھی کمزورنہ ہونے دیا۔ساری زندگی درویشانہ اوربے نیازانہ گزاردی۔وہ چاہتے تو اپنی شخصی مقبولیت اورنسبی شناخت کی بدولت دولت وجاگیرسمیٹ سکتے تھے،لیکن انہوں نے اس کی طرف کبھی پلٹ کربھی نہ دیکھا۔روکھی سوکھی کھاکراللہ کا شکراداکیا اورغیرت مندانہ زندگی کا عملی نمونہ پیش کیا۔مجلس احرارسیاست کا میدان 1949 ء میں چھوڑ کراپنی تمام سرگرمیوں کو دین کی دعوت،اصلاح معاشرہ اورسب سے بڑھ کر تحفظ ختم نبوت وناموسِ صحابہؓکے لیے سرگرم ہوچکی تھی۔آپ کی قیادت میں احرارنے اسی محاذپر اپنی صلاحیتیں صرف کردیں۔مولانا سیدابوذربخاری سراپااحرارتھے اوروہ تادم آخر احرارہی رہے۔موسم کی شوخیاں،راہ کی صعوبتیں اورمنزل کی کٹھنائیاں اُن کے قدموں کو آگے بڑھنے سے کھبی نہ روک سکیں،بلکہ وہ شیر کی طرح مخالف دریاکی مخالف سمت پر رواں دواں رہے۔
پچاس برس تک تقریروتحریرکے ذریعے قرآن وحدیث،سیرت النبی اورسیرت ازواج واصحابِ رسول کی ترویج واشاعت اُن کا مشن رہا۔۔دیانت وامانت میں اپنی مثال آپ تھے۔عطیات کے ایک ایک پیسہ کا حساب رکھتے۔حافظ قرآن تھے اورقرآن سے اُن کا عشق دیدنی تھا۔صبح شام نمازکے بعدایک مخصوص وقت تلاوت کے لیے وقف تھا۔منزل آخردم تک اتنی پختہ تھی کہ کبھی کسی نے انہیں قرآن مجیدکھول کرپڑھتے نہیں دیکھا۔رمضان المبارک میں قیام اللیل کا اہتمام رہا۔خودمنزل پڑھتے اورسحریسے پہلے تراویح ختم کرتے تھے۔ایسی بے مثال زندگی آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
گزشتہ دنوں ملک بھر کی طرح ملتان میں بھی شدید بارش ہوئی۔28/اگست کو حضرت امیرشریعت کے پہلومیں آپ کی قبربارش کی وجہ سے بیٹھ گئی۔جس سے آپ کا جسم مبارک ظاہرہوگیا۔دیکھنے والوں کا کہناہے کہ جسم مبارک بالکل صحیح حالت میں تھا،یہاں تک کہ کفن بھی میلانہیں ہواتھا۔جانشین امیرشریعت مولاناسیدابوذربخاری ؒ کے جسم مبارک اورکفن کو اللہ تعالیٰ نے اُن کی وفات کے اُنتیس سال بعدبھی قائم ودائم رکھا،سبحان اللہ۔اسی دوران ایک ساتھی نے وڈیوبنالی جو سوشل میڈیاپر وائرل ہوچکی ہے۔قبرکے منہدم ہونے کی اطلاع ملنے پر حضرت امیرشریعت کے پوتے مولانا سیدعطاء المنان بخاری وہاں پہنچ گئے اورگورکن سے کہہ کر قبرکو فوراً بندکرادیا۔یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا معجزہ ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے حالات ظاہرکرکے ہمیں اُن کی راہ پرچلنے کا سبق دیتاہے۔تاکہ ہم بھی اسلام کی روشن تعلیمات پر عمل پیراہوکرحق اورسچ کا جھنڈابلندکرتے رہیں اور اپنے اسلاف کی طرح زندہ وجاویدہوجائیں۔
مرنے والے مرتے ہیں،مگر فناہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جداہوتے نہیں
مرنے والو ں کی جبیں روشن ہے،اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں،روشن رات میں
بشکریہ(روزنامہ “امت”