طرز سیاست میں تبدیلی اور رانا شہباز احمد کا کردار۔
تحریر
مصطفی علی قریشی
ملک بھر میں جاگیردارانہ ،وڈیرا شاہی،جی حضور والی سیاست معمول ہے سیاستدان جو خدمت کی علامت ہونے چاہیے وہ خوف کی علامت بنے ہوے ہیں پسماندہ علاقوں میں موروثی سیاست کا زیادہ رجحان ہے ملک کا ایک بڑا حصہ دیہاتی علاقوں پر مشتمل ہے تو زیادہ تر وڈیرا کلچر عام ہے اگر جھنگ کی بات کی جاے تو یہاں بھی وڈیرا کلچر کا راج تھا لوگ اپنے حقوق کی فراہمی کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے جھنگ کے حلقہ پی پی 130 میں ایک ہی خاندان نسل در نسل اقتدار میں تھا متعدد مرتبہ ممبران صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے باوجود کوئی ترقیاتی کام نا ہو سکے یا جان بوجھ کر کروائے نہیں گئے حلقہ کی عوام اپنے حقوق کی فراہمی کا مطالبہ کرنے سے ڈرتی تھی کہ کہیں گستاخی نا ہو جائے ووٹر کی عزت،قدر نہیں تھی کیونکہ عوام کو مدمقابل کوئی امید کی کرن نظر نہیں آ رہی تھی اسی لیے باعث مجبوری خاموش تھے لیکن 2013 کے عام انتخابات میں رانا شہباز احمد خاں نے سیاست میں انٹری ماری خیر الیکشن تو ہار گئے لیکن محنت کا سلسہ جاری رکھا اب حلقہ میں نوابی کلچر تھا ایک عام ووٹر،سپوٹر کی کوئی قدر نہیں کی جاتی تھی جو موصوف منتخب ہوتا تھا وہ حلقہ کی عوام سے مکمل طور پر ناواقف تھا چند قریبی لوگوں کے علاوہ کسی سے کوئی جان پہچان نہیں تھی حلقہ کی عوام کی غمی خوشی میں شرکت نہیں کی جاتی تھی لیکن رانا شہباز نے اس کلچر کو بدلہ اور عام عوام کی غمی خوشی میں باقاعدہ طور پر شرکت کر کے عوامی وابستگی کا اظہار کیا جبکہ دوسری جانب الیکشن کے بعد عوام اپنے منتخب کردہ امیدوار کی شکل دیکھنے کو ترس جاتی تھی ہر پانچ سال بعد اپنے امیدوار کا دیدار نصیب ہوتا رانا شہباز نے نوابی،وڈیرا شاہی،کو ختم کرنے کی ایک کوشش کی اور کافی حد تک کامیاب بھی ہو گئے 2013 سے 2018 تک مسلسل عوام میں موجود رہے عوامی مسائل کا حل نکالنا اولین ترجیح سمجھا ایک عام ووٹر سپوٹر کی عزت احترام کرنا یہی چیز عوام کو پسند آئی اور یہی محبت پیار،عزت و احترام کی عوام طلب گار تھی عوام تو تلاش میں تھی کہ کوئی ایسا لیڈر آئے جو اس نظام کو بدلے عام انتخابات میں رانا شہباز نے موروثی سیاست کا خاتمہ کر کے مدمقابل امیدوار کو ایک بڑے مارجن سے شکست سے دو چار کیا سیاسی مبصرین حیران رہ گئے مخالف امیدواروں کی نفرت کا ووٹ محبت میں تبدیل ہو کے رانا شہباز احمد خاں کے بیلٹ باکس میں گیا رانا شہباز الیکشن جیتنے لے بعد بھی حلقہ میں متحرک رہے پھر 2024 کے عام انتخابات جب one sided مقابلے کی توقع کی جا رہی تھی کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ن لیگی امیدوار کو شکست ہو گی لیکن الیکشن ڈے پر سرپرایز ملا اور سب کے سب حران رہ گئے عام عوام جو امیدواروں کی حقیقی طاقت ہوتی ہے ان سے حسن سلوک امیدوار کا فرض ہے غمی خوشی میں شرکت کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے حلقہ کی عوام نے مسلسل دو بار بھاری مارجن سے جتوا کر یہ ثابت کر دیا کہ وڈیرا کلچر،جی حضور، کا نظام اب نہیں چل سکتا ہے عوام خدمت عزت کی سیاست کی طلبگار ہے جو عوامی وابستگی کا ٹرینڈ رانا شہباز نے شروع کیا اب اسکی کاپی مدمقابل امیدوار بڑے شوق سے کر رہے ہیں ہر عروج کو زوال ہے اسی لیے ہر چیز کو سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے تاکہ مسقتبل میں اسکا ناقابل تلافی نقصان نا اٹھانا پڑے ۔واسلام
خاکسار: مصطفی علی قریشی