معاشی ترقی اورخوش حالی

تحریر:اللہ نوازخان

allahnawazk012@gmail.com

وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نےکہا ہے کہ پاکستان میں معاشی استحکام آچکا ہے اورملک معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔پاکستان مہنگائی کے بوجھ تلے دب چکا ہےاور ضروری ہے کہ ملک کے معاشی حالات بہتر کیے جائیں،تاکہ خوشحالی کا دور شروع ہو جائے۔پاکستان صرف معاشی مشکلات برداشت نہیں کر رہا بلکہ دیگر مسائل بھی موجود ہیں۔معاشی استحکام کس کو کہا جاتا ہے؟اگر ایک ملک کےتمام شہریوں کی ضروریات زندگی آسانی سے پوری ہوتی رہیں،تو کہا جا سکتا ہے کہ معاشی خوشحالی آچکی ہے۔معاشی استحکام کے ساتھ سیاسی استحکام بھی ضروری ہے۔سیاسی استحکام سے دہشت گردی،لاقانونیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جیسے مسائل پرقابو پایا جا سکتا ہے۔بہرحال معاشی خوشحالی کے لیےجو لوازمات ضروری ہیں،ان کو اپنانا ضروری ہے۔ٹیکس کی وصولی کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں اور ٹیکس وصولی ضروری ہوتی ہے،کیونکہ شہریوں کے دیے گئے ٹیکسز سے کسی بھی ملک کا نظام چلتا ہے۔ٹیکس وصول کرنے کے لیے جو طریقہ کار اپنائے جا رہے ہیں ان پر کچھ حلقوں کی طرف تنقید بھی کی جا رہی ہےکہ یہ طریقہ کار بہتر نہیں۔ٹیکس نہ دینے یا نان فائلرزکو کچھ سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،لیکن اس طرح کی سزائیں کچھ مسائل پیدا کر سکتی ہیں۔ٹیکسز کی وصولی کے لیے اگریہ طریقے بہتر ہیں،جو حکومت اپنا رہی ہے تو بلا تفریق ان کو جاری رکھا جائے،لیکن اگر نقصان دہ ہیں تو دیگربہتر طریقےاپنائےجائیں۔خلوص تب نظر آئے گا جب ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔موجودہ حکومت کے لیے ایک بڑا بحران،مخلوط حکومت کا ہونا بھی ہے۔دیگر پارٹیاں جو اتحادی بھی ہیں،لیکن وفاقی حکومت کے لیےکچھ نہ کچھ مسائل بھی کھڑے کرتی رہتی ہیں۔ان مسائل کے ساتھ نپٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔اب پی ٹی آئی کے ساتھ بھی مذاکرات جاری ہیں،امید کرنی چاہیے کہ یہ مذاکرات مثبت نتیجہ دیں گے۔پی ٹی آئی مضبوط اپوزیشن کی صورت میں موجود ہےاورمضبوط اپوزیشن حکومت کے لیےایک ایسا درد بن چکی ہے،جس کاتوڑ حکومت کے پاس نہیں۔ معاشی خوشحالی صرف ٹیکسز وصول کرنے سے نہیں آتی بلکہ دیگر عوامل بھی معاشی خوشحالی لاتے ہیں۔پاکستان کے پاس قدرتی وسائل کا ذخیرہ ہےاور ان کا درست استعمال کر کے پاکستان معاشی طور پر خوشحال ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ اشرافیہ طبقہ کے لیےغیر ضروری مراعات کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔پاکستانی عوام جب دیکھتی ہے کہ وہ بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر پا رہے،لیکن حکمران اور اشرافیہ طبقہ اپنی مراعات میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں تو احساس محرومی پیدا ہو جاتا ہے، یوں حکومت اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔زراعت جیسا شعبہ نظر انداز کرنا افسوسناک ہے۔پاکستان میں زرخیز زمینیں ہیں اوریہ زمینیں کئی قسم کی فصلیں اگانے کے لیے موزوں ہیں، لیکن کسانوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔مہنگائی کی وجہ سےفصل کاشت کرنا مشکل امر بن گیا ہے۔مہنگی کھاد،مہنگےبیج،مہنگی ادویات خریدنے والا کسان پریشانی کا شکار ہے۔بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سےزمینوں کو سیراب کرنے والا ٹیوب ویل کاپانی بھی مہنگا ہو چکا ہےاورہل چلانے کے لیےبھی زیادہ ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔یہ سب مسائل زراعت کا شعبہ تباہ کر رہے ہیں۔بجلی کے بارے میں بھی حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف نے کہا تو بجلی کی قیمتوں میں کچھ روپے فی یونٹ کم کر دیے جائیں گے۔ معاشی لحاظ سے پاکستان کو مضبوط کرنا ہے تو زراعت کے شعبے کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔صنعتیں بھی ویران ہو رہی ہیں،ان پر بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ہر چیز کئی گنا مہنگی ہو رہی ہےاور مہنگی چیزیں خریدنا عام شہری کےبس سے باہر ہو چکا ہے۔صحت کا مسئلہ بھی بڑھ چکا ہے۔ایک غریب آدمی علاج کرانے سے بھی عاجز آچکا ہے۔جس طرح دوسری اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ییں،اس طرح ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ادویات کی قیمتیں بھی کنٹرول کی جائیں تاکہ عام آدمی بھی اپنا علاج کرا سکے۔
ترقی یافتہ ممالک میں ریاست کی طرف سےایک شہری کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دی جاتی ہیں اور ان ریاستوں کایہ فعل معاشی خوشحالی ظاہر کرتا ہے۔پاکستان میں بڑھتی غربت کروڑوں افراد کو مایوسی دلا رہی ہے۔غربت کے ساتھ بےروزگاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔معاشی خوشحالی کی طرف بڑھتے قدم رکنے نہیں چاہیے،مگر معاشی خوشحالی کے ثمرات عام آدمی کو بھی حاصل ہونےچاہیے۔تجارت پر خصوصی توجہ دے کر معاشی حالات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ایران سے اگر سستی گیس یا تیل مل سکتا ہےتوخریداری کرنی چاہیے۔دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تجارت کو فروغ دیا جائے۔بہت سے ممالک کو پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے میں دلچسپی ہوگی۔اقتصادی حالت کو سدھارنے کے لیےبہترین منصوبے اور پالیسیاں بنانی ہوں گی۔پاکستان آسانی سےمعاشی خوشحالی کی طرف بڑھ سکتا ہے،لیکن اس کے لیےمل کر ہی کام کرنا ہوگا۔ٹیکسز میں اضافہ کر کےمعاشی خوشحالی نہیں آتی بلکہ پیداوار میں اضافہ کر کےخوشحالی آتی ہے۔مایوسی کی بجائے مثبت امید رکھنی چاہیے کہ پاکستان معاشی طور پر خوشحالی کی طرف گامزن ہو چکا ہے۔
معاشی خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ کاری کی طرف بھی توجہ دی جائے۔اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری سے ملک خوشحالی کی طرف بڑھ سکتاہے۔سرمایہ کاروں کو اگر تحفظ اوسہولیات دی جائیں،تو کافی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنےمیں دلچسپی لیں گے۔بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ضروری ہے اور اندرونی کی بھی،تاکہ سرمایہ کار بےفکری سے اپنا سرمایہ لگا سکیں۔سرمایہ کاری سےملک میں بےروزگاری بھی ختم ہوتی ہے اور غربت میں بھی کمی ہو جاتی ہے۔غربت اور بےروزگاری جرائم میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ملک خوشحال ہونے کے ساتھ جرائم بھی کم ہو سکتے ہیں۔بڑے سرمایہ کاروں کو بھی ترجیح دی جائے اور چھوٹی سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے۔چھوٹی چھوٹی گھریلو صنعتیں معاشی طور پرخوشحال کر سکتی ہیں۔