14اگست-وطن سے محبت اور عہد وفا کا دن ہے۔
تحریر۔۔۔ایم دانش
ہمارا پیارا ملک پاکستان 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا۔ سب کو معلوم ہے کہ اسلام کے نام پراللہ کا عطا کردہ یہ ملک نعمت الہی سے کم نہیں، جو رمضان المبارک کی مقدس ترین ستائیسویں شب کی نیک ساعتوں میں قائم ہوا۔ یہ ملک کتنی محنت ، مشقت اور جدوجهد کے بعد حاصل کیا گیا۔ اس کے لیے ہمارے بزرگوں نے کتنی بیش بہا قربانیاں دیں۔ ان کا ذکر تاریخ پاکستان کی کتابوں میں موجود ہے۔ جانوں کی یہ قربانیاں کوئی سینکڑوں، ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں تھیں۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے مسلمانوں کو انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنا سب مال و متاع، عزیز رشتے داروں اورجائداد کو چھوڑ کر جوق در جوق پاکستان آئے۔ راستے میں انکے پاس موجود زاد راہ تک کومتعصب ہندوؤں نے لوٹ لیا۔ سکھوں نےمردوں اوربچوں کو بیدردی سے قتل کردیا اور عورتوں کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا۔ یوں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے وہ سر زمین پاکستان پہنچے۔ مقامی باشندوں نے انکو اپنے یہاں رہنے کو جگہ دی اورانہیں کھانے پینے، پہننے اوڑھنے کا سامان مہیا کیا۔ بھائی چارے اور آپس داری کی خوشگوار فضا قائم ہوئی۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو اخلاص اور محبت کے جذبے سے بانٹا گیا۔ ہجرت کرکے آنے والے مسلمان مہاجر ہندوستان میں انتہائی مشکل حالات سے دو چار تھے، جہاں ان کو آزادی کے ساتھ اپنی عبادات ادا کرنے کی اجازت تھی، نہ انہیں کاروبار اور ملازمتوں کے حقوق حاصل تھے۔ وہ گائے کا گوشت نہیں کھا سکتے تھے۔ ان کی خواتین کے عزتیں محفوظ نہ تھیں۔ ان کی مساجد کو مسمار کردیا جاتا تھا، ان کے گھروں کو نذر آتش کر دیا جاتا تھا۔ وہ جب پاکستان کی آزاد فضاؤں میں پہنچے توفضا اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ پاکستان پہنچنے والوں نے باری تعالی کا سجدہ شکرادا کیا کہ یہاں انہیں ازادی، سکون اور حفاظت کا احساس ملا۔
پیار، محبت، ایثار اور باہمی اشتراک عمل نے ایک نئے جذبے کی بنیاد رکھی اور سب لوگ حرارت ایمان اور ملی جذبے کے ساتھ پاکستان کی ترقی، تجارت میں دیانت داری، دفاتر میں پابندی وقت اور کارخانوں میں سخت جانفشانی کے ساتھ کام کرنے لگے۔ مہاجرین کے زخم تازہ تھے راستے میں انہیں انتہائی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا سفاکانہ قتل عام کیا گیا۔ مردوں عورتوں اور بچوں کوبے دردی سے قتل کیا گیا۔ اور ان کو تمام مال و متاع سے محروم کر دیا گیا تھا۔ ٹرین میں موجود تمام مسافروں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ یہ وہ قربانیاں تھیں جو ہمارے ملک پاکستان کے لیے تمام لوگوں نے اپنی جانوں کو نذرانہ پیش کر کے دیں۔ یہی وجہ تھی کہ سب مہاجر اور مقامی لوگوں کے دلوں میں رحم اور پیار کا جذبہ کار فرما تھا۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں رہنے والوں کے جذبات بدلتے چلے گئے۔ ہمارے درمیان نفاق پیدا ہو گیا۔ سیاست نے ہمارے اخلاق کو تباہ کر دیا۔ ایمان داری رفتہ رفتہ ہمارے حیطہ کردار سے جدا ہوتی چلی گئی۔ ہوس اور پیسے کے لالچ نے رشوت خوری اور حرام روزی کو روزگار بنا لیا ۔ ملاوٹ, کم ناپ تول، ذخیرہ اندوزی اور بے راہ روی عام ہوتی چلی گئی اخلاقی گراوٹ نے سنجیدہ فکر رکھنے والوں کو بے چین و متفکرکر دیا۔ جذبہ حب۔ الوطنی سرد پڑتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ یوم آزادی کی تقریبات میں عمارتوں اور سڑکوں پہ سجے برقی قمقموں کو دیکھنے کے لئے آنے والوں کی خوشی اور سکون کو برباد کرنے کا پورا پورا سامان کیا جانے لگا۔ ہر سال چودہ اگست کو نوجوان منچلوں کی عید ہو جاتی ہے۔ وہ باجے بجا بجا کر آسمان سر پہ اٹھالیے ہیں۔ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے سائلنسر نکال کر ایسا شور بپا کرتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ خواتین اور شرفاء کی گاڑیوں پہ پٹاخے پھینکے جاتے ہیں۔ آوارہ منش نوجواں غل غپاڑہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیا یہ حرکتیں یوم آزادی منانے کے شایان شان ہیں؟ نہیں۔ ہر گز نہیں۔
ہمارا یہ جوش و خروش،اس کی سمت اور اس کا انداز وطن کے حق میں نہیں جاتا۔ حکومتیں بھی خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہتی ہہں۔ ماحول پہ ایک ایسا رنگ غالب آجاتا ہے جو ملک کی فضا مکدر کردیتا ہے۔ ذرا سوچیں یہ سب کچھ ہمارے حق میں بہتر ہے؟ اج کل کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو ہر طرف افرا تفری دکھائی دیتی ہے ہم حب الوطنی کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ جگہ جگہ ہنگامے اور حکومت گرانے کی بات ہوتی ہے۔ اداروں کے ساتھ لڑائی کی جا رہی ہے۔ عدالتیں اپنا کام صحیح طور پرنہیں کر پا رہی ہیں۔ انکے طرز عمل پر شکوک کا اظہار کیا جارہا ہے۔ بعض لوگوں کی جانب سے لوگوں کو فوج کے خلاف نفرت پہ اکسایا جارہا ہے اور انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ بات ملک کی سالمیت اور یکجہتی کے خلاف ہے۔ بعض حلقوں کی طرف سے ملک کی معیشت اور سیاسی استحکام کو نقصان پہنچانے تک سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں آپس میں اختلافات کا شکار ہیں۔ ملکی معیشت کو نقصان پہنچنے کی کسی کو پرواہ نہیں۔ ادھر حکمرانوں کے اللے تللے جاری ہیں۔ وزراء، مشیروں اور معاونین کی فوج ظفر موج سرکاری خزانے پر بوجھ ہنی ہوئی ہے۔ جبکہ عوام کی خستہ حالی کا کسی کو احساس نہیں ہے۔ انتخابات کو تنقید کا نشانہ بنا کر حکومت گرانے کی کوششیں کی جاتی ہیں یہ باتیں ملک کے حق میں نہیں ہیں۔ ہمیں ان سے اجتناب کرنا ہوگا یہ ملک جو اتنی قربانیوں سے حاصل کیا گیا ہے اس کو طرح طرح کے الزامات لگا کر بے توقیر نہ کیا جاۓ۔ دوسروں کو الزامات کا نشانہ بنانا اور ان کی کردار کشی کرنا کسی طرح بھی ہمارحق میں بہتر نہیں ہے۔ آئیے اس یوم آزادی پر عہد کریں کہ ہم سب مل جل کر وطن عزیز کے ترقی ، خوش حالی اورملی یک جہتی کے لئے کام کریں گے اور معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔













