مشن جھنگوی کا پہلانام۔۔۔۔علامہ احسان الہی ظہیر شہید۔۔۔عصمت صحابہ کے محافظ کی داستان عشق۔۔۔سٹارنیوزپر
کالم نگار حیدر بن اسد
“خوش نصیب”
31 مئی 1945 کو سیالکوٹ کے محلے احمد پورہ میں پیدا ہونے والے اس بچے کے بارے میں اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ پہلوئے رسولﷺ میں جنت البقیع میں سیدنا عثمان بن عفانؓ کے قدموں میں مدفن ھوگا
اک روشن تارہ جو افق کے اس پار تو چلا گیا تو لیکن وفاؤں کی داستانِ الم چھیڑ گیا۔۔۔۔۔!!!!
علامہ احسان الہیٰ ظہیر شہیدؒ جیسی شخصیت کا احاطہ ایک مضمون میں ممکن نہیں لیکن کوشش کرتے ھیں کہ انکے حالات زندگی پہ روشنی ڈالی جاسکی
شہادت سے ایک سال قبل غالباً عمرہ کی ادائیگی کے دوران اس مردِ قلندر نے میدانِ عرفات کے مقام پہ امام مالکؒ اور سیدنا ابراہیمؓ کے پہلو میں دفن ہونے کی خواہش کا اظہار رب سے کیا اور التجا کی مجھے یہ سعادت حاصل ھو
22 کتابوں کا مصنف یہ انسان فنِ خطابت اور کئی خداد داد صلاحیتوں کا بیک وقت مالک تھا۔۔۔۔۔۔!!!!
مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی سرزمین کو ترجیح دی تاکہ یہاں کے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاسکے اور جمیعت اہلحدیث کی جامع مسجد چینیانوالی میں امامت کے فرائض سرانجام دینے لگے۔۔۔۔۔۔!!!!
قرآن کے سچے عاشق کا یہ عالم تھا کہ اپنی حیات میں بلاناغہ 20 سال کے عرصے میں تراویح کے فرائض سرانجام دئیے
مضمون سمیٹے ھیں
23 مارچ 1987 کے دلخراش واقعے کی جانب بڑھنے سے
ادھر جھنگ کی سرزمین سے امیرِ عزیمتؒ کا انتخاب رب تعالیٰ نے کیا جبکہ لاھور کی سرزمین پہ یہ درویش منش انسان بھی ۔۔!!!! دونوں شخصیات اسلام کے بے باک لیڈر تھے دونوں نے ناموس رسالت و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ کے لیے بھرپور کام کیا
23 مارچ 1987 کو لاھور قلعہ لچھمن سنگھ کے فوارہ چوک میں سیرت النبیﷺ کانفرنس میں حضرات صحابہ کرامؓ کا یہ سچا عاشق جب اصحابِ بدر کے حالات زندگی سناکر انؓ سے عہدِ وفا نبھا رھا تھا اور یہ شعر انکی زبان سے مکمل نہ ھوسکا
کافر ھے تو بے تیغ بھی لڑتا ھے سپاہی۔۔۔۔۔
ٹائم بم سے سٹیج پہ دھماکہ ھوا جہاں دیگر جید علمائے کرام شہید ہوئے وہاں حضرت علامہ احسانؒ بھی شدید زخمی ہوئے
قسمت پہ نازاں جائیے ایک سال پہلے کی جانی والی دعا کا ثمر مولانا کو یوں عطا ہوا کہ رب نے انہیں پہلوئے عثمانؓ میں جگہ دی۔۔۔۔۔۔!!!!!
28 مارچ کو انہیں سرکاری ائیر لائن سے ریاض پہنچایا گیا جہاں یہ رات دن زندہ رھے اور 30 مارچ کو اپنی جان “جانِ آفریں” کی سپرد کردی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔۔۔۔۔۔!!!!!
یوں اک عہد کا باب تمام ھوا لیکن ہمارے لئے یہاں سب سے اھم بات یہ ھے کہ اسلام مسالک سے بالاتر ھوکر آپکو اپنے حصے کا دیا جلانے کی ترغیب دیتا ھے جہاں تفریقات، یا فروعی معاملات کی گنجائش نہیں نکلتی جہاں صرف ناموسِ رسالتﷺ اور ناموسِ اصحابِ پیغمبرﷺ کیلئے اپنی توانئیاں صرف کرنے کا درس حریت ملتا ھے۔۔۔۔۔۔















