قیام پاکستان اور ہجرت کے المناک واقعات
تحریر متین قیصرندیم
3جون 1947ء کو جب تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا گیا تو برصغیر کے مسلمانوں میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی لیکن جب یہ علم ہوا کہ گورداسپور کو بھارت میں شامل کر دیا گیا ہے تو اس سے لا محالہ مسلمانوں کو تشویش ہوئی۔ پنجاب اور بنگال کو تقسیم کیا گیا۔
پنجاب کی تقسیم کے بعد مسلمانوں کا بے دردی سے خون بہایا گیا۔ جو مسلمان ہجرت کرکے پاکستان آنا چاہتے تھے انہیں ٹرینوں میں شہید کیا گیا جو اپنی جانیں بچا کر پاکستان آ گئے انہوں نے ہجرت کی خونچکاں داستانیں سنائیں جنہیں سن کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہجرت کے دوران نہ صرف لاکھوں مسلمان شہید کئے گئے بلکہ بے شمار مسلمان خواتین کی آبرو ریزی کی ،مسلمانوں کی ٹرینوں پر بلوائیوں نے حملہ کردیا اور اتنے مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ ردعمل کے طور پر یہاں بھی ہندوئوں اور سکھوں پر حملے کئے گئے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں بہت کم ہندو اور سکھ ہلاک ہوئے۔۔ اُس زمانے کے سکھوں کے لیڈر ماسٹر تارا سنگھ نے قائداعظم ؒ کی پیشکش مسترد کرکے ہندوئوں کا ساتھ دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور کے اسمبلی ہال کے باہر ماسٹر تارا سنگھ نے کرپان لہرا کر ’ ’نہیں بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ وہیں ظاہر ہو گیا تھا کہ سکھوں اور ہندوئوں کے کیا ارادے ہیں۔ آج سکھوں کی بڑی تعداد کا یہ موقف ہے کہ ماسٹر تارا سنگھ حقیقی معنوں میں ان کا نمائندہ نہیں تھا۔ وہ پہلے ہندو تھا بعد میں اس نے سکھ مذہب اختیار کیا تھا۔ ان کے مطابق ماسٹر تارا سنگھ ہندوئوں کا ایجنٹ تھا اور اس نے ہندوئوں کے ایما پر سکھوں کو مشتعل کیا تھا کہ وہ ہجرت کرنے والے مسلمانوں کا خون بہائیں۔ بہرحال یہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ نابغۂ روزگار، افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے تقسیم ہند کے حوالے سے خونریزی کی جو تصویر کھینچی ہے وہ دل دہلا دیتی ہے۔ ان کے کئی افسانے اس لحاظ سے شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں۔’’کھول دو‘‘ اور ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ جیسے افسانوں کی مثال نہیں ملتی
اب رہا یہ مسئلہ کہ ہجرت کے دوران کتنے مسلمانوں کو شہید کیا گیا تو اس میں مختلف آراء پیش کی جاتی ہیں۔ فرانسیسی ادیبوں کی شہرت یافتہ کتاب ’’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘‘ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ مجموعی طور پر 20لاکھ انسانوں نے جان کی قربانی دی لیکن کتنے لاکھ مسلمان شہید ہوئے اس کا ذکر نہیں ملتا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق15لاکھ مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ مسلمان عورتوں کی آبروریزی کے روح فرسا واقعات الگ ہیں۔
قائداعظم ؒ کو قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ پنجاب کی تقسیم کے اتنے ہولناک نتائج برآمد ہوں گے۔ بنگال کی تقسیم تو پرامن طریقے سے ہو گئی تھی لیکن پنجاب کی تقسیم نے پانچ دریائوں کی اس دھرتی کو لہو سے بھر دیا۔ اس حوالے سے اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ہندوستان میں ہجرت کے حوالے سے جو فلمیں بنائی گئیں ان میں حد درجہ غلط بیانی کی گئی۔ پہلے تو وہ قیام پاکستان کو مسلم رہنمائوں کی غلطیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ پاکستان بنانے میں کانگرس کی اپنی غلطیوں کا بہت بڑا کردار ہے۔1929ء میں جب قائداعظم ؒ نے نہرو رپورٹ کے جواب میں ’’ چودہ نکات‘‘ پیش کئے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کانگرس نے ان نکات کو کیوں مسترد کیا؟ آج ہندوستان کے کئی ماہر سیاسیات اس بات کو مانتے ہیں کہ قائداعظم ؒ کے چودہ نکات کو تسلیم کر لینا چاہئے تھا کیونکہ ان چودہ نکات کے ذریعے مسلمانوں کیلئے جو مانگا گیا تھا وہ وقت نے درست ثابت کیا
یہ صرف حقائق ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کا قیام ناگزیر تھا۔ البتہ ہجرت کے وقت جو اندوہناک واقعات ہوئے وہ انتہائی افسوسناک ہیں۔ تاریخ میں ان قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا
ہمیں دیس مل گیا
دُکھ مٹ گئے تمام
ہمیں دیس مل گیا ہر اِک اُداس چہرہ مسرت سے کھِل گیا گونجے کچھ اتنی زور سے نعرے فضائوں میں ہر طرف شور مچ گیا پاکستان کا مطلب کیا
پاکستان زندہ باد
مراسلہ نگار متین قیصر ندیم احمد پور سیال 03006821668