اسلاموفوبیا کےبڑھتےواقعات

تحریر:اللہ نوازخان

allahnawazk012@gmail.com

اسلام اور مسلمان کے خلاف دنیا بھر میں نفرت بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔اسلام اور مسلمان کے خلاف نفرت انگیز،زہر آلود اور گستاخانہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ایسے ایسے جھوٹ بولے جاتے ہیں،جس سے اسلام کے خلاف نفرت بڑھ جاتی ہے۔اس زہریلےمواد کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ لوگ مسلمانوں اور اسلام سے نفرت کریں۔مغرب میں نفرت بہت بڑھ رہی ہے،لیکن کہیں نہ کہیں اچھی خبر مل جاتی ہے کہ لوگ اسلام بھی قبول کر رہے ہیں۔دنیامیں اسلاموفوبیا کی اصطلاح استعمال ہوتی ہےاور فوبیا کا مطلب ہے ڈرنا۔اسلامو فوبیا کا مطلب ہے اسلام سے ڈرنا۔اسلام سے ڈرانے کے لیےاسلام کو دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔حالانکہ اسلام دہشت گردی سےسختی سے منع کرتا ہے۔اسلام پر اعتراضات لگا دیے جاتے ہیں اور مسلمانوں کو دشمن انسانیت ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔اسلام جہاں مسلمانوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کو حکم دیتا ہے وہاں دوسروں(غیر مسلموں)کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔اسلام کو بدنام کرنے کے لیے اسلام پر تنقید کی جاتی ہے لیکن اسلامی نظام اپنانے سے معاشرہ “بہترین معاشرہ”تشکیل پاتا ہے۔اگر کہیں دہشت گردی کا واقعہ ہو جائے،تو بے سوچے سمجھے اسلام کو نشانہ بنا کر،تنقید شروع کر دی جاتی ہے۔اسلام بڑے پیمانے پر قتل عام سے تو روکتا ہی ہے،ایک بےگناہ انسان کا قتل بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ممنوع ہے۔ایک بےگناہ انسانی قتل کو بہت بڑا جرم کہا گیا ہے۔قرآن حکیم میں ارشاد ہے”اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو،قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے،اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا”(سورة المائدہ)قرآن بے گناہ کو قتل نہ کرنے کاحکم دیا ہےاور ایک بے گناہ کو قتل کرنا،پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیتا ہے۔ایک انسانی جان کو بچانا،پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف قرار دیا ہے۔اسلام میں ایک جان کی بہت زیادہ حرمت ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلام کو بدنام کرنے کے لیےدہشت گردی کا رشتہ اسلام سے جوڑ دیا جاتا ہے۔اسلام پاکیزگی اور انسانیت کا درس دیتا ہے۔صحیح العقیدہ مسلمان اسلامی تعلیمات پر پورے دل وجان سے عمل کرتا ہے۔یہ ہو سکتا ہے کہ کسی مسلمان سےکوئی کوتاہی ہو جائے،تو کسی کے انفرادی عمل کو اسلام سے نہ جوڑا جائے۔
اسلام مخالفین کی تنگ نظری دیکھیےکہ مسلمانوں کے علاوہ جو گروہ یا مذاہب،دہشت گردی یا دوسرے جرائم میں ملوث ہیں ان کا ذکر نہیں کیا جاتا،اگر کوئی فرد بری سرگرمیوں میں ملوث پایا جائے تو اس کے عمل کوانفرادی کہا جاتا ہے۔جو فرد اسلام کا اچھی طرح مطالعہ کرتا ہے تو اس کو علم ہو جاتا ہے کہ اسلام تو امن کا مذہب ہےاور اس کی تعلیمات معاشرے کو فلاح کی طرف لے جاتی ہیں۔اسلام تو انسانی حقوق کی بات کرتا ہے۔اسلامی تعلیمات میں خواتین اور بچوں کےحقوق واضح ہیں۔غیر مسلموں کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کا حکم ہے۔انسانوں کوتو چھوڑیے،جانوروں اوردہگرجانداروں(پودوں، درختوں،پرندوں) کےحقوق کا بھی ذکر ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بے وجہ درختوں کو کاٹنے سے بھی منع کیا ہے۔جانوروں کےحقوق کو بھی تحفظ حاصل ہے۔ایک حدیث کے مطابق،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”کیا تم ان جانوروں کے سلسلہ میں اللہ تعالی سے ڈرتے نہیں،جن کا مالک اللہ تعالی نےتمہیں بنا دیا ہے؟(ابوداود)ایک اور حدیث کے مطابق،حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےاس صحابی کو چڑیا اور اس کے بچوں کو واپس گھونسلے میں رکھنے کا حکم دیا جو وہ اٹھا کر لے آئے تھے(ابو داؤد)اسلامی تعلیمات کو پڑھا جائے تو اچھی طرح علم ہو جاتا ہے کہ اسلام نےمہربانی کا حکم دیا ہے۔انسانوں اور جانداروں کےحقوق متعین کر دیے ہیں۔اسلام برداشت، رواداری اور امن کا درس دیتا ہے۔اسلامو فوبیا پھیلا کر اسلام سے دور کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
دہشت گردی میں ملوث ان مذاہب اور ممالک کا ذکر نہیں کیاجاتا جو انسانوں کو قتل کر رہےہیں۔مشرق وسطی میں ایک ایسی آگ بھڑک رہی ہے جس میں مسلمان بری طرح جل رہے ہیں۔دیگر علاقوں کا بھی جائزہ لیا جائے تو مسلمانوں کوتباہ بھی کیا جا رہا ہے اور دہشت گردی جیسے الزامات بھی مسلمانوں پر لگائے جا رہے ہیں۔پوری دنیا میں صرف مسلمانوں کوہی بہت زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔انسانی حقوق کے علمبردار ممالک مسلمانوں کو حقوق دینے کے لیے تیار ہی نہیں۔صرف برطانیہ میں ہی مسلمانوں کو کئی قسم کی مشکلات کا سامنا ہے۔برطانیہ میں اسلاموفوبیا کےواقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔مانیٹرنگ گروپ”ٹیل ماما”کے مطابق،2024ء میں 5837 اسلامو فوبیا کے واقعات رپورٹ ہوئےجبکہ 2023ءمیں یہ تعداد 3767 تھی اور 2022ء میں 2201 تھی۔ان واقعات سے علم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف دنیا بھر میں نفرت بڑھ رہی ہےاور ان کے جان ومال کو شدید خطرات لاحق ہیں۔دیگر ممالک میں بھی اسلامو فوبیا کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔مسلمانوں کو کاروباری اور دیگر سرگرمیوں میں شدید نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان کو عبادت سے روک دیا جاتا ہے۔بہت سے واقعات، وقوع پذیر ہو جاتے ہیں لیکن ان کی رپورٹ درج نہیں ہوتی،کیونکہ رپورٹ درج کرنے کی صورت میں مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔مسلمانوں کی مساجد اور متبرک مقامات بھی گرا دیے جاتے ہیں۔انڈیا میں بابری مسجدکو زبردستی شہید کروایا گیا،حالانکہ تاریخی لحاظ سے بھی وہ مسجدایک انسانی ورثہ تھی۔صرف مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سےتاریخی مسجد کو شہید کر دیا گیا.
‘اسلامو فوبیا’کو اقوام متحدہ نےبھی ایک جرم تسلیم کر لیا ہےاور اسلامو فوبیا کے خلاف ہر سال 15 مارچ کواسلامو فوبیا کا دن منانے کی قرارداد منظور کر لی تھی۔یہ ایک اچھا اقدام ہےاورسراہنے کے قابل ہے۔اقوام متحدہ کے اس عمل سےمسلم کمیونٹی کے حقوق کو تحفظ ملنے کا امکان ہے،لیکن اس بات کو مدنظررکھناہوگا کہ اسلاموفوبیا کے خلاف نفرت کا نیک نیتی سےخاتمہ کرنے کی کوشش کی جائے۔مسلمانوں کی آپس میں نااتفاقی بھی،ان کوبہت زیادہ نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہے۔مسلمان متحد ہو کراسلام کے خلاف پھیلائی گئی نفرتوں کو ختم کر سکتے ہیں۔مسلمانوں کو ایک موثر آواز اٹھانی ہوگی،تاکہ اسلامو فوبیا کےواقعات کاخاتمہ ہو سکے۔اسلام سلامتی کا دین ہےاور اسلامی تعلیمات تمام انسانوں کو آپس میں مل جل کر رہنے کا درس دیتی ہیں۔اقوام متحدہ کی طرف سےہر سال 15 مارچ کادن اسلامو فوبیا کے خلاف مقرر کرنابہترین عمل ہے،لیکن جہاں اسلاموفوبیا کے خلاف واقعات ہو رہے ہیں،ان کو بھی روکنا چاہیے۔مسلمان دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتے ہیں،لیکن نفرت کی وجہ سےمسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تمام انسان برابر ہیں اور اسلام بھی تمام انسانوں کو برابرقرار دیتا ہے۔غیر مسلموں کو دعوت ہے کہ اسلام کو پڑھیں اور سمجھیں،تاکہ حقائق واضح ہو سکیں۔