شام میں پھرکشیدگی بڑھ رہی ہے
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
شام میں آٹھ دسمبر کو بشارلاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد،ایک عبوری حکومت قائم کر دی گئی تھی اوراحمدالشرع اس حکومت کے صدربنے۔اس بات کا اندازہ تھا کہ امن دیر سے آئے گا،کیونکہ شام میں خانہ جنگی بہت بڑھی ہوئ تھی۔بیرونی مداخلت نے بھی شام کا امن تباہ کر دیا تھا اور بیرونی مداخلت اب بھی ہو رہی ہے۔امید بڑھ گئی تھی کہ شام کے حالات درست ہونے میں کچھ وقت لگے گا،بعد میں حالات معمول پرآجائیں گے۔موجودہ عبوری حکومت امن لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق شام کے حالات پھر بگڑنا شروع ہو گئے ہیں۔شام کے جنوبی علاقے الازقیہ میں سکیورٹی فورسز اور مسلح افراد کے درمیان فائرنگ کے تبادلے ہوئے۔شام کے دارالحکومت دمشق میں پیر کے روز سکیورٹی دستے کو دوران گشت بم حملے کا نشانہ بنایا گیا۔جھڑپیں شروع ہیں اور بڑھتی کشیدگی نے شام کا امن پھر خراب کرنا شروع کر دیا ہے۔شام کے ایک عہدےدار کے مطابق اس کشیدگی کے پیچھے حزب اللہ کا ہاتھ ہے۔الازقیہ کے سیکورٹی عہدےدار ساجد الدیک نے کہا کہ گورنری اور دوسرے علاقوں میں حالیہ کشیدگی میں حزب اللہ اور بیرونی قوتوں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ساجد کے مطابق حزب اللہ نے ساحلی علاقوں میں کچھ گروپوں کو مدد فراہم کی ہے۔حزب اللہ اور بیرونی ممالک شام کےساحلی علاقوں میں بعض جماعتوں اور اسد کی باقیات کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔اسد حکومت کی باقیات کی کئی اہم شخصیات کو گرفتار کرنے کا بھی دعوی کیا گیا ہے۔الازقیہ کے گورنر محمد عثمان نے العربیہ کو بتایا کہ بغاوت پھیلانے اور اس مقصد کے لیے عناصر کو بھرتی کرنے کےپیچھے بیرونی جماعتیں ہیں۔شام کی حکومت کے خلاف بغاوت پھر سر اٹھا رہی ہے۔باغیوں کوبیرونی امداد مل رہی ہےاور بیرونی امداد کے سہارے شام میں انتشار بڑھ رہا ہے۔شام میں کشیدگی کئی دہائیوں سے جاری ہےاور جاری رہنے والی کشیدگی بہت ہی نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔اسد نےمخالفین کو کچلنے کے لیے ہر قسم کے حربے آزمائے۔تشدد کے علاوہ بے شمار افراد کو قید کیا،بعض قیدی لمبے عرصے تک زندان میں قید رھے۔ بعض قیدی تو 40 سال تک قیدی بنے رہے،اگر اسد حکومت جاری رہتی تو ان کے ریا ہونے کا ابھی تک کوئی چانس نہیں تھا۔خواتین کی عزتیں بھی پامال کی گئیں اور لاکھوں لوگوں کو بے گھر بھی کیا گیا۔اسد حکومت نےممنوعہ کیمیکل ہتھیار بھی مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کیے۔کیمیکل ہتھیار کم وقت میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلاتے ہیں اوریہ ہتھیار شام کےشہریوں پر استعمال ہوتے رہے۔اب مسلح جھڑپیں شروع ہو چکی ہیں اور ان جھڑپوں پر قابو پانا اس وقت تک مشکل ہوگا،جب تک بیرونی مداخلت کو بند نہیں کیا جاتا۔
شام کے ساحلی شہروں انطاکیہ اور طرطوس میں جمعہ کی شام کو عبوری حکومت کی فوج اور سابق صدر بشارالاسد کےحامیوں کےدرمیان بھی جھڑپیں شروع ہوئیں۔ان دونوں شہروں میں علوی فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کی اکثیرت ہےاور بشارکا تعلق بھی اسی فرقے سے تھا۔اسد حکومت کے خاتمے کےبعد پہلی دفعہ اتنی بڑی جھڑپیں ہوئیں ہیں۔لڑائی کے دوران بہت سی ہلاکتیں ہوئی ہیں اوران ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔ان جھڑپوں میں خواتین کے علاوہ بچوں کی بھی ہلاکتیں ہوئیں۔چھ ماہ کا ایک نوزائیدہ بچہ بھی ہلاک ہوا۔بجلی کی ترسیل،چھ اسپتال اور متعدد ایمبولنس کی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔لڑائی کی وجہ سے بہت سے شہری بے گھر ہو گئے ہیں۔بے گھری کے علاوہ خوراک اور دیگر سہولیات کی بھی کمی ہو چکی ہے۔حکومتی فوج کےکچھ افراد بھی ہلاک ہوئے ہیں۔اسد کی باقیات کو بیرونی امداد مل رہی ہے،جس کی وجہ سےحکومت اور ان کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔مشرق وسطی میں شام کے علاوہ دیگر کئی ممالک بدامنی کا شکار ہیں۔بد امنی والے علاقوں میں ہلاکتوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ان علاقوں میں زیادہ انتشار ہے،جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔بیرونی مداخلت بھی حالات خراب کرنے کی ذمہ دار ہے۔
شام میں صرف ہلکےیابھاری ہتھیاروں کے ذریعے لڑائی نہیں لڑی جا رہی بلکہ دستی بموں سے بھی حملے کیے جا رہے ہیں۔شام کے دارلحکومت دمشق میں سیکورٹی دستے پر بموں سے حملہ کیا گیا ہے۔یہ جھڑپیں اور حملے اس وقت شروع ہوئے جب احمد الشرع نے اعلان کیا تھا کہ شہریوں کے خون میں ملوث ہر فرد کا احتساب کیا جائے گا۔الشرع کےاعلان کے بعد حالات میں کشیدگی بڑھ گئی۔الشرع شاید کچھ معاملات میں لچک دکھا دیں،کیونکہ اس طرح بہت زیادہ انتشار پھیل جائے گا۔یہ بات درست ہے کہ ہر مجرم کو سزا ملے لیکن جنگی حالات میں بعض فیصلےملک کےمفاد کو مد نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں۔حزب اللہ اگر شام میں ملوث ہےیا کوئی دوسرا ملک،تو ان کو روکا جائے تاکہ امن کی طرف بڑھا جا سکے۔عرب ممالک سمیت عالمی برادری شام کے معاملے میں اپنا خصوصی کردار ادا کرے۔شام پرامن رہے گا،تو حزب اللہ اور دیگر ممالک بھی بہتر طریقے سے اپنے دشمنوں سے لڑ سکتے ہیں۔ایران حزب اللہ کی مدد کرتا رہا ہے،تہران حزب اللہ کو روکے۔ایران اور شام مل کر علاقے کےامن کے لیے کام کریں۔حزب اللہ کو بھی بہت بڑے دشمنوں کا سامنا ہےاور ایران بھی بہت بڑی بڑی طاقتوں سےدشمنی نباہ رہاہے۔ایران اور حزب اللہ دونوں شام اور دیگر علاقوں کے امن کے لیےبہتر کردارادا کریں۔الشرع حکومت ابھی تک سنبھل نہیں سکی اورسنبھلنے کے لیے کافی عرصہ لگ سکتا ہے،لہذا باغی یا شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کرینےچاہیے۔مذاکرات سےبہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔باغی یا شدت پسند بھی نہیں چاہیں گے کہ شام تباہی کی طرف بڑھے،کیونکہ ان کی خواہش ہوگی کہ وہ بھی پرامن طریقے سےاپنی زندگیاں گزار سکیں۔سعودی عرب،پاکستان،چین،قطر یا کوئی اور ملک،شام میں امن لانے کے لیےبہتر کردار ادا کرے۔بہتر یہی ہے کہ سب مل کر امن لانے کی کوشش کریں۔شام میں بنیادی ضروریات کی شدید قلت ہے،اس لیے شام کی ہر قسم کی مدد کی جائے تاکہ الشرع حکومت بھی اپنے مسائل بہتر طریقے سے حل کر سکے۔