الیکشن پریس کلب یا اسٹیج ڈرامہ؟
تحریر:سلمان احمد قریشی
اوکاڑہ پریس کلب، نام سن کر ذہن میں ایک سنجیدہ، باوقار اور جمہوری ادارے کا نقشہ بنتا ہے مگر حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔ یہاں صحافت کم اور کرسی کی پوجا زیادہ ہوتی ہے۔ برسوں سے الیکشن کا انعقاد ایک ایسی روایت ہے جو صرف اعلان میں زندہ رہتی ہے اور عمل میں دم توڑ دیتی ہے۔
خلوصِ نیت، سمجھوتہ، برداشت سب کچھ آزما کر دیکھا مگر کرسی کے رسیا اور مفادات کے غلام چند افراد نے صحافت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ صلاحیت اور اہلیت کی کمی کو اگر کوئی عملی شکل دیکھنا چاہے تو یہیں دیکھ لے۔
2024ء میں برسوں بعد الیکشن کا اعلان ہوا، مہم چلی، امید پیدا ہوئی لیکن پھر عدالتی پیچیدگیوں کا بہانہ، اور بس۔
اسی دوران “مودی ماڈل” کے شیدائیوں نے اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا شاہکار پیش کیا۔ نیم خواندہ اور غیر صحافتی عناصر کو “صحافی” کا میک اپ پہنا کر کلب میں گھسایا گیا۔ مقصد صاف تھا اصلی اراکین کی آواز کو دبانا۔
پھر ایک دن اس ڈرامے کا “کلیمکس” آیا۔ جعلی فہرست تیار، دروازے بند، مشاورت کے نام پر ممبران اور اجنبی اندر، اور اچانک اعلان آج اور ابھی الیکشن! صدر کے لیے امیدوار بھی پہلے سے تیار، مدمقابل بھی اور بیلٹ پیپرز پر دونوں کے نام پہلے سے چھپے ہوئے۔ اس کمزور سکرپٹ پر تالیاں بھی بجیں اور ویڈیوز بھی بنیں۔
اداکار اپنی اپنی پرفارمنس دیتے رہے، تماش بین خوش ہوتے رہے، اور نتیجہ حسبِ توقع “میں ہی صدر، اور اتحاد کبھی نہیں ہونے دوں گا”۔
مگر قسمت نے بھی خوب مذاق کیا۔ اگلے ہی دن ایک عہدے دار نے ویڈیو بیان میں اس جعلی صدارت کو رد کر دیا۔ فلیکس اتر گئی، کرسی ہاتھ سے گئی، اور جعلی ممبران کی شوخیاں ٹھنڈی پڑ گئیں۔ آخر میں پریس کلب کے دروازے پر تالا لگنا ہی اس کہانی کا اختتام بنا۔
یہ ہے وہ انجام جہاں صحافت کے نام پر ذاتی مفاد کا کھیل کھیلا جائے، اور پریس کلب صحافیوں کا نہیں بلکہ کرسی کے پجاریوں کا اڈہ بن جائے۔













