کمالیہ یونیورسٹی میں کلاسز کا آغاز اور حاجی محمد اسلم انصاری کو اعزازی شیلڈ
تحریر . محمد زاہد مجید انور
ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ*
*تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ہے۔ جب کسی علاقے میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں تو اس کے اثرات نہ صرف وہاں کے نوجوانوں بلکہ پورے خطے پر مرتب ہوتے ہیں۔ کمالیہ کے باسیوں کے لیے یہ لمحہ نہایت مسرت و شادمانی کا ہے کہ یونیورسٹی آف کمالیہ میں پہلی بار باقاعدہ کلاسز کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس تاریخی موقع پر افتتاحی تقریب منعقد ہوئی جس میں وائس چانسلر ڈاکٹر یاسر نواب نے کمیونٹی ایڈوائزری بورڈ کے ممبر حاجی محمد اسلم انصاری کی خدمات کے اعتراف میں انہیں اعزازی شیلڈ پیش کی۔حاجی محمد اسلم انصاری کی غیر موجودگی میں یہ شیلڈ ان کی نمائندگی کرتے ہوئے ملک محمد شریف (وائس چیئرمین پولٹری ایسوسی ایشن پاکستان) کے صاحبزادے ملک احمد نے وصول کی۔ اس اعزاز کے بعد حاجی محمد اسلم انصاری نے اپنے تاثرات میں کہا کہ مجھے بے حد خوشی ہے کہ میرے شہر کمالیہ میں یونیورسٹی کی کلاسز کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسا خواب تھا جو آج حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ انہوں نے وائس چانسلر ڈاکٹر یاسر نواب اور انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمارے بچے اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہو سکیں گے اور مستقبل میں ملک و قوم کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔یہ امر قابلِ تعریف ہے کہ کمالیہ جیسے تعلیمی طور پر پسماندہ شہر میں یونیورسٹی کی شکل میں ایک قیمتی تحفہ دیا گیا ہے۔ اب یہاں کے نوجوانوں کو بڑے شہروں کا رخ کرنے کے بجائے اپنے ہی علاقے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا سنہری موقع میسر آئے گا۔ اس اقدام سے نہ صرف والدین پر معاشی بوجھ کم ہوگا بلکہ تعلیم کے فروغ میں بھی غیر معمولی تیزی آئے گی۔کمیونٹی ایڈوائزری بورڈ کے ممبران کا کردار اس سلسلے میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ حاجی محمد اسلم انصاری جیسے مخلص افراد کا تعاون اور رہنمائی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی کے روشن مستقبل کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی کاوشوں کو اعزازی شیلڈ سے سراہنا دراصل عوامی نمائندوں اور سماجی رہنماؤں کی حوصلہ افزائی ہے تاکہ وہ مزید جذبے اور خلوص کے ساتھ کام جاری رکھیں۔جہاں تک حاجی محمد اسلم انصاری کی شخصیت کا تعلق ہے، وہ نہ صرف ایک فعال سماجی رہنما ہیں بلکہ فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ غریب اور مستحق طلبہ کی تعلیمی مدد، یتیم بچوں کی کفالت، مساجد و مدارس کی خدمت اور عوامی مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ متحرک رہنا ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ وہ اپنی سادگی، خلوص اور خدمتِ خلق کے باعث عوامی حلقوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔یقیناً یہ دن کمالیہ کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا کہ یہاں ایک نئے تعلیمی باب کا آغاز ہوا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبہ اس موقع کی قدر کریں، اپنی محنت اور لگن سے علم کے زیور سے خود کو مزین کریں تاکہ وہ عملی زندگی میں اپنے شہر اور ملک کا نام روشن کر سکیں۔*













