جہاں خواب حقیقت میں ڈھلتے ہیں

تحریر: سلمان احمد قریشی

قوموں کی تعمیر و ترقی کے سفر میں تعلیمی ادارے ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وہ چراغ ہیں جن کی روشنی سے نہ صرف نسلیں منور ہوتی ہیں بلکہ معاشرے کے اندر شعور، آگہی اور عملی زندگی کے لیے درکار حوصلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ ضلع اوکاڑہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں ڈسٹرکٹ پبلک سکول و کالج (ڈی پی ایس) جیسا شاندار ادارہ موجود ہےجس نے وقت کے ساتھ اپنی روایات کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ کامیابیوں کے نئے سنگِ میل بھی تراشتے، منفرد شناخت بنائی۔
حال ہی میں بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ساہیوال کے سالانہ امتحانات میں ڈی پی ایس اوکاڑہ کے طلبہ و طالبات نے ایک بار پھر اپنی محنت، لگن اور ادارے کے اعلیٰ معیارِ تعلیم کو ثابت کر دکھایا۔ طالبہ ایشہ شفیق نے 1152 نمبر حاصل کر کے ایف ایس سی (پری میڈیکل) میں پورے بورڈ میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ اس کامیابی کی گونج نہ صرف ادارے بلکہ پورے ضلع اوکاڑہ کے تعلیمی حلقوں میں سنائی دی۔ اسی طرح عثمان محمود نے 1151 نمبر لے کر دوسری پوزیشن اپنے نام کی، جبکہ محمد عبداللہ شاہد نے 1145 نمبر حاصل کر کے بوائز میں تیسرے نمبر پر رہتے ہوئے ڈی پی ایس کا پرچم مزید بلند کیا۔ یہ اعزازات کسی اتفاق یا حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ برسوں کی محنت، استاد اور شاگرد کے تعلق، اور ایک ایسا ماحول ہے جسے تعلیمی دوستی کی بہترین مثال کہا جا سکتا ہے۔
ڈی پی ایس اوکاڑہ کا شمار ان اداروں میں ہوتا ہے جنہوں نے صرف نصابی کامیابیوں تک اپنے سفر کو محدود نہیں رکھا بلکہ کردار سازی، نظم و ضبط اور تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ادارے کے فارغ التحصیل طلبہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی کامیابیوں کی داستان رقم کر رہے ہیں۔
اس ادارے کی کامیابیوں کے پس منظر میں جہاں اساتذہ کی انتھک محنت ہے، وہیں موجودہ پرنسپل ظفر ٹیپو کی شفیق قیادت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ظفر ٹیپو تعلیمی میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت استاد، منتظم اور رہبر کے حسین امتزاج کا پتہ دیتی ہے۔ ایک شفیق استاد جو طالب علم کو نصاب کے ساتھ ساتھ زندگی کا سبق بھی سکھاتا ہے، ایک بہترین منتظم جو ادارے کے ہر شعبے کو مربوط انداز میں آگے بڑھاتا ہے، اور ایک ایسا انسان جو اپنے مزاج کی نرمی اور کردار کی شفافیت سے دوسروں کے دل جیت لیتا ہے۔ ایسے افراد کسی معاشرے میں واقعی شجرِ سایہ دار سے کم نہیں ہوتے جو آنے والی نسلوں کے لیے سایہ دار پناہ گاہ ثابت ہوتے ہیں۔
ڈی پی ایس اوکاڑہ کے حوالے سے ایک اور پہلو جو قابلِ ذکر ہے، وہ معاشرتی شخصیات کا اس ادارے سے والہانہ تعلق ہے۔اولمپیئن
مظہر ساہی جنہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ امریکہ میں گزارا اور وہاں کے ایوانِ اقتدار تک رسائی حاصل کی مگر دل و جان سے آج بھی اپنی دھرتی اوکاڑہ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ تعلق کسی جذباتی نعرے یا وقتی جوش کا نتیجہ نہیں بلکہ اس گہرے احساسِ وابستگی کا ثبوت ہے جو انسان کو اپنی جڑوں سے باندھ کر رکھتا ہے۔اولمپیئن
مظہر ساہی جب ڈی پی ایس کے نتائج میرے ساتھ شیئر کرتے ہیں تو یہ محض ایک خبر نہیں ہوتی بلکہ اس ادارے سے جڑے محبت، لگن اور فخر کے جذبات کی جھلک ہوتی ہے۔
یہاں یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی ہوگی کہ ڈی پی ایس کے ادارے صرف اوکاڑہ تک محدود نہیں بلکہ ساہیوال، پاکپتن اور دیگر اضلاع میں بھی قائم ہیں۔ سہولیات اور نظام تعلیم تقریباً یکساں ہیں، لیکن نتائج اور شہرت کے اعتبار سے اوکاڑہ کا ڈی پی ایس سب سے نمایاں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں تعلیمی ماحول کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور طلبہ کے درمیان اعتماد، محبت اور یکسوئی کی فضا قائم کی گئی ہے۔ یہی وہ فرق ہے جو ایک تعلیمی ادارے کو محض سکول سے ایک “تربیت گاہ” میں بدل دیتا ہے۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ایسے ادارے کسی ضلع یا شہر کے لیے محض ایک تعلیمی مرکز نہیں ہوتے بلکہ پورے معاشرے کے لیے باعثِ فخر سرمایہ ہوتے ہیں۔ یہ ادارے نئی نسل کو صرف کتابی علم نہیں بلکہ جینے کا سلیقہ اور معاشرتی اقدار سکھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کے طلبہ کامیابیاں سمیٹتے ہیں تو یہ صرف خاندان یا ادارے کی نہیں بلکہ پورے علاقے کی کامیابی شمار ہوتی ہے۔
ڈی پی ایس اوکاڑہ کی یہ شاندار روایات اور کامیابیاں ہم سب کے لیے ایک پیغام ہیں کہ اگر ادارے، اساتذہ اور طلبہ یکجا ہو کر محنت کریں تو وسائل کی کمی اور حالات کی دشواریاں رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں کو محض ڈگریاں بانٹنے والی فیکٹریاں نہ بنائیں بلکہ ان کے ذریعے کردار اور شعور کی تعمیر کریں۔
آج کے اس دورِ مسابقت میں جب دنیا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، ایسے اداروں کا وجود اور ان کی کامیابیاں ہمارے لیے امید کی کرن ہیں۔ ڈی پی ایس اوکاڑہ نہ صرف اپنے طلبہ کے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے روشنی کا مینار ہے۔ یہی وہ روشنی ہے جو نسل در نسل منتقل ہو کر آنے والے وقتوں کو روشن کرتی ہے۔