سیاست نعرہ بازی نہیں بلکہ کردار کا امتحان ہے

تحریر: سلمان احمد قریشی

دہشت گردی کے مسائل سے دوچار صوبہ خیبر پختونخوا کے نئے وزیراعلیٰ نے وزیراعظم شہباز شریف کے بلائے گئے اجلاس میں شرکت نہیں کی یہ فیصلہ اور رویہ افسوس ناک ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما دہشگردی کے خلاف آپریشن کے بجائے مذاکرات کی بات کرتے ہیں مگر خود سیاسی قیادت سے بات کرنے پر آمادہ نہیں۔ وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی صوبے کے مسائل پر بات کرتے اور ان کے حل کا عزم ظاہر کرتے مگر وہ عشقِ عمران میں مرنے کی بات کرتے ہیں۔ ہزاروں بے گناہ شہری جو دہشت گردی کا نشانہ بنے، ان کے لیے آواز نہیں اٹھاتے۔ بھٹو اور نواز شریف پر طنز و تنقید کرنے سے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ سہیل آفریدی نے وزیراعلیٰ بنتے ہی جو غیر مناسب الفاظ استعمال کیے وہ سیاسی تربیت اور بلوغت کی کمی کی علامت ہیں۔خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کا بیان کہ ”میرے نام کے ساتھ بھٹو نہیں لگتا“دراصل سیاسی کم فہمی اور تاریخی ناآگہی کی نشاندہی کرتا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں چند نام ایسے ہیں جنہیں وقت کی گرد، مخالفتوں کی آندھیاں اور سازشوں کی تیز لہریں بھی مٹا نہیں سکیں۔ ذوالفقار علی بھٹو انہی ناموں میں سے ایک ہیں۔ ان کا نام کسی خیرات یا عنایت کا نتیجہ نہیں بلکہ قربانیوں، جیلوں، کوڑوں، اور پھانسی کے پھندے پر لکھی گئی تاریخ ہے۔بھٹو کا نام عوام کے لہو سے لکھا گیا ہے۔وہ لہو جو پیرس سے کراچی اور پنڈی تک بہایا گیا۔ یہ وہ نام ہے جو گولیوں کے شور میں بھی عوامی حاکمیت کی گواہی دیتا رہا۔ بھٹو محض ایک شخص نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے عوامی خودمختاری، جمہوریت، اور وفاقی توازن کا نظریہ۔سہیل آفریدی شاید بھول گئے کہ ان کے اپنے صوبے کو 280 ارب روپے کی اضافی رقوم صدر آصف علی زرداری کے دور میں اٹھارویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے نتیجے میں ملیں۔ یہ وہ تاریخی فیصلہ تھا جس نے خیبر پختونخوا سمیت تمام صوبوں کو ان کے جائز وسائل پر اختیار دیا۔ یہ بھٹو کے سیاسی فلسفے اور پیپلز پارٹی کی وفاقی سوچ کا تسلسل تھا، جس نے مرکزیت کے بجائے صوبائی مساوات کی راہ ہموار کی۔
لاڑکانہ کی پانچ قبریں۔۔ ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو، میر شاہنواز بھٹو، اور میر مرتضیٰ بھٹو محض خاندانی یادگار نہیں بلکہ سیاسی قربانیوں کی داستان ہیں۔ کیا یہ سب خودکشیاں تھیں۔۔؟ نہیں، یہ جمہوریت کے تحفظ کی قیمت تھی جو اس خاندان نے ادا کی۔ یہ قبریں یاد دلاتی ہیں کہ بھٹو کا نام کسی اقتدار کی وراثت سے نہیں بلکہ عوامی جدوجہد اور خون سے جنم لیتا ہے۔سہیل آفریدی کو یاد رکھنا چاہیے کہ جمہوریت کی تاریخ اُن لوگوں نے لکھی جو آمریت کے سامنے ڈٹے رہے، نہ کہ اُنہوں نے جودوسروں کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں شریک رہے۔
پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں اس بات کی شاندار مثال ہیں کہ سیاست خاندانی نام سے نہیں بلکہ کردار سے بنتی ہے۔ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے مگر دیانت، سادگی اور عوامی خدمت کے باعث اپنی شناخت قائم کی۔ وزیراعظم نواز شریف کے ابتدائی دور میں آئی جے آئی کے وزیراعلیٰ کے طور پر وائیں نے جس شفافیت اور محنت سے حکومت کی۔وہ آج کے سیاست دانوں کے لیے رہنمائی کا باعث ہے۔ ان کا پس منظر یاد دلاتا ہے کہ سیاسی عظمت کا معیار“نام”نہیں بلکہ“کام”ہے۔عبداللہ شاہ، قائم علی شاہ، مراد علی شاہ، نثار کھوڑو ان سب کے نام کے ساتھ“بھٹو”نہیں لگتامگر یہ سب بھٹو کے نظریے کے امین ہیں۔ بھٹو ہونا کسی خاندانی امتیاز کا نہیں بلکہ عوامی نظریے سے وفاداری کا اعلان ہے۔ یہ نام مساوات، جمہوریت، اور عوامی خودمختاری کے لیے کھڑے ہونے کا استعارہ ہے۔
اختلاف رائے جمہوریت کی روح ہے مگر جب کوئی رہنما تاریخ کو مسخ کر کے بیان بازی کرے تو وہ دراصل اپنی سیاسی تربیت پر سوال اٹھاتا ہے۔ بھٹو کا نام نہ کسی فوجی جنرل نے دیا، نہ کسی تخت نے بخشا۔ یہ نام عوام نے اپنے خون، نعرے اور جدوجہد سے تراشا ہے۔ عدالتوں کے فیصلے، سازشیں اور انتقام اس نام کو مٹا نہ سکے کیونکہ بھٹو ایک نظریہ ہے اور نظریے کبھی مرتے نہیں۔قومیں اُن رہنماؤں سے زندہ رہتی ہیں جو قربانیاں دیتے ہیں، نہ کہ اُن سے جو طاقت کے سہارے تخت نشین ہوتے ہیں۔ بھٹو کی سیاست آج بھی زندہ ہے۔مزدور کی زبان پر، کسان کے جذبے میں اور جمہوریت کے ہر نعرے میں کیونکہ یہ نام خیرات سے نہیں، قربانیوں سے ملا ہے اور قربانیاں تاریخ کا وہ حصہ ہیں جو کبھی مٹایا نہیں جا سکتا۔
پی ٹی آئی ایک مقبول جماعت ہے اور سہیل آفریدی عوامی ووٹ سے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں انہیں ذمہ داری اور وقار کے ساتھ صوبے کی نمائندگی کرنی چاہیے۔ صوبے کے عوام کو ترقی، روزگار اور امن کی ضرورت ہے، نہ کہ اشتعال انگیز بیانات کی۔ وزیراعلیٰ کے طور پر ان کا ہر لفظ ریاستی نظم اور قومی وحدت پر اثر انداز ہوتا ہے۔اگر وہ واقعی عمران خان کے نظریے کے وفادار ہیں تو انہیں“عشقِ عمران میں مرنے”کی بجائے“نظریہ عمران کے ساتھ زندہ رہنے”کی بات کرنی چاہیے اور دوسروں کو بھی زندہ رہنے کا حق دینا چاہیے۔ سیاسی مخالفت اگر دشمنی میں بدل جائے تو جمہوریت کا سفر رک جاتا ہے۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی برطرفی کے پیچھے بانی جماعت کی بہن سے اختلافات کی کہانی سنائی دیتی ہے، جو دراصل تحریک انصاف کے اندر خاندانی سیاست کے بیجوں کا انکشاف ہے۔ وہی خاندانی سیاست جس کے خلاف پی ٹی آئی کبھی نعرہ لگاتی تھی۔جہانگیر ترین کا گروپ، پرویز خٹک، محمود خان، عثمان بزدار یہ سب اب عمران خان کے قریب نہیں۔ کیا یہ بھی ”نظریاتی غدار“بن گئے یا پھر یہ جماعت بھی انہی کمزوریوں کا شکار ہو گئی ہے جن پر تنقید کیا کرتی تھی۔۔؟
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو سمجھنا ہوگا کہ سیاست نعرہ بازی نہیں بلکہ کردار کا امتحان ہے۔ اگر وہ عوام کے منتخب نمائندہ ہیں تو انہیں اختلاف کو برداشت کرنے، اداروں سے مکالمہ کرنے، اور سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنے کا عزم ظاہر کرنا چاہیے۔ سیاست دشمنی کا نہیں، مکالمے کا دوسرا نام ہے۔
یہی وہ بنیادی غلطی ہے جو تحریک انصاف مسلسل دہرا رہی ہے کہ وہ ہر دروازہ بند کر کے خود کو تنہا کر رہی ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور معاشی مشکلات کا حل کسی ایک جماعت کے پاس نہیں۔ قومی اتفاقِ رائے، اشتراکِ عمل اور سیاسی رواداری ہی وہ راستہ ہے جس سے ملک کو استحکام مل سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے تعاون یا کم از کم مکالمہ نہ صرف قومی مفاد میں ہے بلکہ جمہوریت کے تسلسل کے لیے ناگزیر ہے۔
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی اگر واقعی صوبے کے مفاد کے لیے سنجیدہ ہیں تو انہیں سیاسی نفرتوں کی بجائے ادارہ جاتی تعاون کو ترجیح دینی چاہیے۔ وزیرِاعلیٰ بننے کے بعد ان کا پہلا فرض انتقام نہیں، اتحاد ہونا چاہیے۔ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے والے لیڈر تاریخ میں زندہ رہتے ہیں، جبکہ نفرت پھیلانے والے وقتی شور میں گم ہو جاتے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کا نام اس لیے زندہ ہے کہ وہ تخت کے نہیں، عوام کے لیڈر تھے۔ وہ گولیوں سے ڈرے نہیں، تختہ دار پر بھی مسکرائے۔ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ خون سے لکھے گئے نام کبھی مٹتے نہیں۔