ایک ہونہار ستارے کا غروب — سمیر مقصود کی المناک کہانی
تحریر ۔محمد زاہد مجید انور
*”إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ”*
*کبھی کبھی زندگی اتنی بے رحم اور بے اعتبار لگتی ہے کہ انسان الفاظ کے ذخیرے میں بھی اپنے درد کا اظہار نہیں کر پاتا۔ چند دن قبل ایک المناک ٹریفک حادثے میں ہم نے ایک قیمتی ہیرے کو کھو دیا — سمیر مقصود۔یہ خبر سن کر ہر دل رنجیدہ ہوا کہ محض چند دن پہلے حادثے کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار جانے والا یہ معصوم نوجوان، سمیر، دراصل ایک ہونہار طالبعلم تھا۔ اب میٹرک کے نتائج کا اعلان ہوا ہے تو دل مزید بوجھل ہو گیا۔ سمیر نے میٹرک کے امتحان میں 1123 نمبر حاصل کیے — ایک شاندار کارکردگی، جو اس کے عزم، محنت اور ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن افسوس کہ آج وہ خود ان کامیاب لمحوں کو دیکھنے کے لیے موجود نہیں جب اس کے دوست، ہم جماعت، اور والدین یہ نتیجہ ہاتھوں میں لیے اس کی یاد میں اشک بہا رہے ہیں تو دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ یااللہ! ہمارے اس بیٹے کو، ہمارے اس طالبعلم کو، ہماری اس امید کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما۔ آمین۔یہ صرف ایک نمبر یا نتیجہ نہیں تھا، یہ سمیر کی مستقبل کی وہ بنیاد تھی جس پر اس نے خوابوں کا محل تعمیر کرنا تھا۔ وہ انجینئر بننا چاہتا تھا، اپنے ماں باپ کا سہارا، اپنے معاشرے کا فخر، اپنے ملک کا روشن چراغ بننا چاہتا تھا۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔سمیر کے والدین، اساتذہ اور دوستوں کے دکھ کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ لیکن ہم بطور قوم، بطور معاشرہ یہ وعدہ کر سکتے ہیں کہ ہم اس جیسے ہونہار بچوں کی قربانی کو فراموش نہیں ہونے دیں گے۔ ہمیں اپنے سڑکوں، ٹریفک نظام اور احتیاطی تدابیر پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کوئی اور سمیر، اپنے خوابوں کے دروازے پر پہنچ کر اس دنیا سے نہ رخصت ہو۔آخر میں بس یہی کہنا ہے:اے سمیر! تم نے کامیابی کا ثبوت دیا، تم نے ہماری آنکھیں نم کیں، تم نے ہمیں فخر بھی دیا اور دکھ بھی اللہ تمہیں جنت میں وہ سکون دے جو اس دنیا میں شاید نصیب نہ ہو سکا۔*
*الوداع، اے ہونہار ستارے!*












