دو تہذیبوں کی روشنی میں جلتا ہوا چراغ ۔شاہد راحیل

تحریر: میر احمد کامران مگسی

شاہد راحیل ملتان کے ادبی افق پر طلوع ہونے والا وہ درخشندہ ستارہ ہیں جس کی تابانی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کی شخصیت کا ہر گوشہ جب پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایک نئی پرت، ایک نیا رنگ اور ایک نیا حسن سامنے آتا ہے۔ وہ محض ایک قلمکار نہیں بلکہ فنونِ لطیفہ کے ہمہ جہت نمائندہ ہیں۔ ان کے وجود میں ایک باکمال کالم نگار کی بصیرت، ایک کہانی کار کی تخلیقی وسعت، ایک شاعر کی نغمگی، ایک ڈرامہ نگار اور اداکار کی فنی مہارت، ایک ماہر قانون کی سنجیدگی اور ایک کامیاب بینکار کی متانت یکجا ہو کر ایک دل آویز شخصیت کو جنم دیتے ہیں۔ شاہد راحیل اپنی تحریروں میں زندگی کے دکھ سکھ، معاشرت کے نشیب و فراز اور تاریخ کے پیچیدہ موڑ اس طرح سمیٹتے ہیں کہ قاری نہ صرف محظوظ ہوتا ہے بلکہ سوچنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے۔ یوں وہ بیک وقت ملتان کی ادبی روایت کے امین بھی ہیں اور اس روایت کو نئی جہتوں سے روشناس کرانے والے بھی۔
شاہد راحیل کی شخصیت اپنے اندر دو عظیم تہذیبوں کی جھلک سموئے ہوئے ہے۔ ایک طرف وہ اپنے والد کی طرف سے بلوچ قبائلی روایات کی عظمت، مقامیت کی مٹی کی خوشبو، محبت اور اخلاص کے پیکر دکھائی دیتے ہیں، تو دوسری جانب والدہ کی طرف سے تحریکِ پاکستان اور ہجرت کی کٹھنائیوں سے جنم لینے والی قربانی، جدوجہد اور بقا کی لازوال داستانوں کے وارث ہیں۔ ان دونوں روایتوں کا سنگم ایک ایسی ہمہ گیر اور نابغۂ عصر شخصیت کو جنم دیتا ہے جو اپنی تحریروں اور اپنے وجود سے تاریخ، روایت اور معاصر شعور کو یکجا کرتی ہے۔ شاہد راحیل دراصل دو تہذیبوں کے امتزاج سے اٹھنے والی وہ روشنی ہیں جو ماضی کی یاد اور حال کی بصیرت کو آنے والے وقتوں کے لیے چراغِ راہ بنا دیتی ہے۔
شاہد راحیل نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو ملک پر ایوب خان کی آمریت دم توڑ رہی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کا سحر فضاؤں میں رچ بس کر نئی امیدوں کو جنم دے رہا تھا۔ سلطانیٔ جمہور کے خواب دیکھنے والوں کی صف میں وہ بھی شامل ہو گئے۔ محلہ باغبان کی فضا میں پلنے والے شاہد راحیل کے پڑوس میں پیپلز پارٹی ملتان شہرکے صدر ایم اےگوہیر کی موجودگی نے ان کے سیاسی شعور کو مزید جلا بخشی۔ جلسے جلوسوں میں شریک ہونا، رات گئے شہر کی گلیوں میں پوسٹر اور بینر لگانا، سیاسی نعرے بلند کرنا،یہ سب ان کے روز و شب کا حصہ بن گیا۔ یوں وہ جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں عملی کردار ادا کرنے لگے۔ مگر جب انہوں نے تاریخِ پاکستان پر قلم اٹھایا اور ماضی کے اوراق کو ترتیب دیا تو یہ کڑوا سچ ان پر آشکار ہوا کہ ہم دراصل ایک ایسے دائرے میں گھوم رہے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں۔ یہاں اشرافیہ ہی اقتدار کی مالک ہے اور جمہور محض ایک وسیلہ، ایک آلہ، جسے استعمال کر کے طاقتور مزید طاقتور بن جاتے ہیں۔ یہی ادراک ان کی فکر اور تحریر کا مستقل حوالہ بن گیا۔
زمانۂ طالب علمی ہی سے شاہد راحیل کا رشتہ قلم و قرطاس سے جڑ گیا تھا۔ ابتدا میں وہ شام کو شائع ہونے والے اپنے زمانہ کے مقبول ترین روزنامہ ” نوائے ملتان” سے وابستہ ہوئے اور بعد ازاں مایہ ناز روزنامہ” امروز” کے طالب علموں کے صفحہ کی ادارت سنبھالی۔ یہیں سے ان کے تخلیقی سفر کی وہ بنیاد رکھی گئی جس نے وقت گزرنے کے ساتھ ایک مستقل روایت کی شکل اختیار کر لی۔ دورانِ ملازمت بھی یہ وابستگی برقرار رہی اور ریٹائرمنٹ کے بعد تو گویا اور بھی مضبوط اور بارآور ہو گئی۔
آج شاہد راحیل کئی نمایاں تصانیف کے خالق ہیں۔ ان کی شائع شدہ کتب میں تیری میری کہانی ،کہانی پاکستان کی حصہ اوّل (جب کہ حصہ دوم زیرِ طبع ہے)، میں اور میرا ملتان (ملتان کی تاریخ و سماجی یادداشتوں پر مبنی)، قدم قدم سوئے حرم (سفرنامۂ حج) اور مجموعۂ غزلیات دہلیز پہ آنکھیں شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی دیگر تصنیفات اشاعت کے مراحل میں ہے، جو پاکستانی سیاسی تاریخ اور حالات حاضرہ پر ان کی گہری نظر کا مظہر ہے۔
قلم سے یہ رشتہ صرف ان کی ذات تک محدود نہ رہا بلکہ انہوں نے اسے اپنی نسلوں کو بھی منتقل کیا۔ ان کی صاحبزادی سائرہ راحیل خان بطور پروفیشنل اسکرپٹ رائٹر اپنی شناخت رکھتی ہیں اور کہانیوں کی کتاب رقصاں ہے زندگی کی مصنفہ ہیں، جبکہ فرزندِ اکبر ڈاکٹر ارحیل خان، جو پیشے کے اعتبار سے سینئر آرتھوپیڈک سرجن ہیں، ادراک کے نام سے شعری مجموعہ تخلیق کر چکے ہیں۔
یوں شاہد راحیل نے نہ صرف اپنی زندگی کو قلم کے نور سے منور کیا بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی یہ امانت سونپ دی، تاکہ یہ تخلیقی چراغ بجھنے نہ پائے اور ہمیشہ آنے والے زمانوں کو روشنی دیتا رہے۔
شاہد راحیل کا ذکر ہو اور ڈاکٹر انوار احمد کا تذکرہ نہ آئے، یہ ممکن ہی نہیں۔ یہ رفاقت یوں محسوس ہوتی ہے جیسے جنم جنم کا ساتھ ہو۔ محلہ باغبان کی گلیوں میں ایک ساتھ بچپن گزارنے والے یہ دونوں احباب آج اپنی ریٹائرڈ زندگی کا حصہ شالیمار کالونی میں بسر کر رہے ہیں۔ گھروں کا فاصلہ چند قدموں کا ہے مگر دلوں کی قربت کا عالم یہ ہے کہ ڈاکٹر انوار احمد اپنی تحریروں اور سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں وقتاً فوقتاً شاہد راحیل کا ذکرِ خیر کرتے رہتے ہیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شاہد راحیل کے قلم کی پختگی اور ان کی فکری جلا میں جہاں ان کے اپنے تجربات اور مطالعے کا حصہ ہے، وہیں ڈاکٹر انوار احمد کی علمی و ادبی شخصیت کا عکس بھی جھلکتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ان کی رفاقت نے ایک دوسرے کی ذات کو سنوارا اور نکھارا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شاہد راحیل آج ایک منجھے ہوئے اور کہنہ مشق قلمکار کے طور پر ہمارے سامنے ہیں، اور اس کا ایک پہلو ڈاکٹر انوار احمد کی علمی و ادبی شخصیت سے جڑا ہوا ہے۔
شاہد راحیل سے ملاقات کی خواہش دل میں طویل عرصے سے تھی اور آج یہ خواہش بالآخر پوری ہوئی۔ ایک ریٹائرڈ بینکار کی حیثیت سے زندگی کے نشیب و فراز دیکھنے کے بعد انہوں نے وکالت کو اپنا میدانِ عمل بنایا اور بینکنگ ٹربیونل کو اپنی پریکٹس کا مرکز قرار دیا۔ آج وہ اس شعبے میں بھی اپنی قابلیت اور بصیرت کے باعث ایک معتبر حوالہ سمجھے جاتے ہیں۔گفتگو کے دوران یہ احساس بار بار ابھرتا رہا کہ وہ نہ صرف وسیع المطالعہ ہیں بلکہ وسیع الذہن بھی ہیں۔ اختلافی آرا کو پوری توجہ اور خندہ پیشانی کے ساتھ سننا اور برداشت کرنا ان کی شخصیت کا نمایاں وصف ہے۔ ان سے ملاقات محض ایک نشست نہیں بلکہ علم و آگہی کا ایسا سفر تھی جس نے دل و دماغ پر خوشگوار نقوش چھوڑے۔ان کے فرزندِ دوم عدیل خان، جو اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ڈپٹی منیجر کے منصب پر فائز ہیں، اپنی خوش اخلاقی اور وضع داری کے ساتھ والد سے ملاقات کے لیے آنے والوں کی میزبانی اور پذیرائی میں پیش پیش رہتے ہیں۔
آج غیرت کے نام پر قتل ہونے والے ایک اور بدنصیب جوڑے کے بارے میں پوسٹ شیئر کر ہا تھا تو مجھے شاہد راحیل کا یہ شعر یاد آ گیا۔
پہلے تو بہن مار دی غیرت کے نام پر
بیٹی کو پھر فروخت کیا بدقماش نے
اسی طرح حرس و ہوس کے ہاتھوں پاگلوں کی طرح اربنائزیشن کرنے والوں اور ملتان میں قتلِ آم کے بعد ڈیفنس اور سٹی کالونیاں بنانے پر شاہد کہتے ہیں کہ
یہ میرے دیس کے لوگوں پہ کیسا ظلم ہوا
مکان بن گئے کھیتے میں اب اناج نہیں
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شاہد راحیل کو صحت و عافیت کے ساتھ عمرِ خضر عطا کرے، ان کے علم و قلم کو مزید برکت دے اور انہیں اپنی نسلوں کے لیے ہمیشہ باعثِ افتخار بنائے۔ آمین۔