نوجوان ثقافت اور قومی زوال
تحریر۔۔۔طاہر عباس
اس خاکسار نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ تحریر کا قلم تھامنا چھوڑ دوں گا، مگر کل ایک ٹک ٹاکر نوجوان کی لڑکیوں کے ساتھ تصویر دیکھ کر خاموشی تو دور کی بات، میرے خیالات پھر بے قابو ہو گئے۔ یہ منظر میرے دل و دماغ میں کئی سوالات اور تشویشیں لے آیا۔
زمانہ بےحد تیزی سے بدل رہا ہے، اور اس کے ساتھ انسان کے ذوق و شعور بھی یکسر تبدیل ہو گئے ہیں۔ ایک ایسا وقت تھا جب علم و حکمت کے حامل، تحقیق کرنے والے اور سنجیدہ گفتگو کرنے والے معاشرے کی آنکھوں کا نور ہوتے تھے۔ ان کی بات سننے، ان کا احترام کرنے کی روایت تھی۔ مگر آج سوشل میڈیا کے ایسے ہنگامے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جہاں غیر تعلیم یافتہ اور تہذیب سے ناواقف نوجوان، سادہ تفریح مہیا کر کے لاکھوں فالوورز حاصل کر لیتے ہیں۔
دوسری طرف، وہ اہلِ قلم جنہوں نے اپنی زندگی تحقیق اور علم کے لیے وقف کی ہے، جو سماجی مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں اور فکر کا چراغ جلائے رکھتے ہیں، ان کی بات سننے والا تقریباً موجود نہیں۔ ہمارا معاشرہ اتنا تماشہ بازی میں مگن ہے کہ دلیل و برہان اور فکری گفتگو کی گنجائش باقی نہیں رہی، بس ہنسی مذاق اور سطحی تفریح کی طلب بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ رجحان ہمارے اجتماعی شعور کو گھائل کر رہا ہے۔ جب نئی نسل دیکھے گی کہ شہرت اور عزت دانشوروں کو نہیں بلکہ سطحی تماشے کرنے والوں کو مل رہی ہے، تو وہ بھی آسان اور سادہ راہوں کا انتخاب کرے گی۔ نتیجتاً نہ کوئی مفکر ہوگا، نہ کوئی صاحبِ نظر، بلکہ محض ایک ایسا ہجوم جن کی محض تفریح یہی ہے کہ کوئی نیا تماشہ دیکھیں۔
یہ صورتِ حال محض وقتی تفریح تک محدود نہیں بلکہ ایک سنگین قومی زوال کی ابتدا ہے۔ تاریخ بارہا یہ سبق دے چکی ہے کہ وہ قوم جو علم و ادب سے منہ موڑتی ہے اور بے وقوفوں کو ہیرو بناتی ہے، اپنی دانشمندی کو دفن کرکے جہالت کو مسلط کرتی ہے۔ اسی لیے آج ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو اس رجحان سے بچائیں، نوجوانوں کو صحیح تعلیم اور مثبت سوچ کی طرف راغب کریں، تاکہ ہمارا کل روشن اور علم و تہذیب سے منور ہو۔












