استحکام، امن اور ترقی وزیرِاعظم شہباز شریف کاعزم
تحریر: سلمان احمد قریشی
سینئر صحافی و تجزیہ نگار سلمان غنی اور مجیب الرحمن شامی کی وز وزیرِاعظم شہباز شریف سے اُن کی رہائش گاہ پر ہونے والی ملاقات ملکی سیاست، خارجہ تعلقات اور قومی استحکام کے حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل رہی۔ یہ ملاقات محض رسمی نوعیت کی نہ تھی بلکہ قومی معاملات پر ایک سنجیدہ مکالمے کی صورت اختیار کر گئی۔ وزیرِاعظم نے نہایت اعتماد، متانت اور ٹھہراؤ کے ساتھ ملک کی مجموعی صورتِ حال پر اظہارِ خیال کیا۔
شہباز شریف نے گفتگو کا آغاز غزہ میں جاری انسانی المیے سے کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کی ہے اور یہ حمایت کسی وقتی مفاد پر نہیں بلکہ اصولی بنیادوں پر قائم ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ پاکستان عالمی سطح پر امن معاہدے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ خونریزی رُک سکے اور فلسطینی عوام کو انصاف ملے۔وزیرِاعظم شہباز شریف نے افسوس کا اظہار کیا کہ عالمی طاقتیں انسانیت کے اس المیے پر مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اُنہوں نے کہا ”غزہ کی سرزمین پر بہنے والا خون پوری انسانیت کے ضمیر پر سوالیہ نشان ہے اور پاکستان اپنی اصولی آواز بلند کرتا رہے گا“۔
بعد ازاں گفتگو کا رخ افغان سرحد پر حالیہ کشیدگی کی طرف مڑا۔ وزیرِاعظم نے واضح الفاظ میں کہا کہ افغان فورسز کے حملے کا پاک فوج نے بروقت اور مؤثر جواب دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان ایک پرامن ہمسائیگی کا خواہاں ہے مگر اپنی سلامتی اور خودمختاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ اُن کے مطابق ”ہم امن چاہتے ہیں، مگر کمزوری نہیں دکھائیں گے“۔وزیرِاعظم شہباز شریف نے دہشت گردی کے سدباب کے لیے جاری اقدامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر ازسرِنو عملدرآمد شروع کیا جا چکا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، لیکن ریاست کے عزم میں کوئی کمی نہیں۔ اُن کے بقول،“امن اور ترقی لازم و ملزوم ہیں ایک کے بغیر دوسرا ممکن نہیں۔
معاشی امور پر بات کرتے ہوئے وزیرِاعظم شہباز شریف نے کہا کہ مشکل فیصلوں کے باعث معاشی صورتحال میں بہتری کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام، مہنگائی میں کمی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں دلچسپی اس امر کا ثبوت ہیں کہ پاکستان درست سمت میں بڑھ رہا ہے۔انہوں نے کہا ”ا ٓنے والا وقت پاکستان کے لیے بہت اچھا ہوگا، اگر ہم اجتماعی مفاد کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیں“۔
یہ گفتگو اس وقت میں ہوئی جب خطہ شدید غیر یقینی کی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف مشرقِ وسطیٰ میں غزہ کا انسانی بحران ہے اور دوسری طرف افغانستان کے ساتھ سرحدی تناؤ۔ تاہم شہباز شریف کے لہجے میں اضطراب کے بجائے پختہ اعتماد تھا۔ ایک ایسا لہجہ جو بتاتا ہے کہ قیادت حالات سے نہ صرف آگاہ ہے بلکہ اُن سے نمٹنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔اسی تناظر میں راقم کا پاکستان کے ممتاز اور سینئر صحافی سلمان غنی سے رابطہ ہوا، جنہوں نے اس ملاقات کے احوال نہایت تفصیل سے بیان کیے۔
سلمان غنی پاکستانی صحافت کا معتبر نام ہیں وہ اُن اہلِ قلم میں سے ہیں جن کے الفاظ میں صداقت، توازن اور وطن سے محبت بولتی ہے۔ اُن کے تجزیے صرف خبری نہیں بلکہ فکری حیثیت رکھتے ہیں۔ کئی دہائیوں پر محیط اُن کا تجربہ صحافت کے طالب علموں کے لیے ایک زندہ نصاب ہے۔
سلمان غنی کے بقول وزیرِاعظم شہباز شریف نے ملاقات میں ایک پُرعزم، متوازن اور مثبت رویّے کا مظاہرہ کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ شہباز شریف کا انداز بتاتا ہے کہ وہ ملک کو درپیش چیلنجز سے واقف بھی ہیں اور اُن کے حل کا عزم بھی رکھتے ہیں۔ سلمان غنی نے کہا،“وزیرِاعظم کا لہجہ مایوسی سے پاک اور مستقبل پر یقین سے بھرپور تھا۔ یہی یقین ایک قوم کی اصل طاقت ہوتا ہے۔”
یہ بات درست ہے کہ سلمان غنی جیسے اہلِ قلم کا مشاہدہ محض رپورٹنگ نہیں بلکہ عہد کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ اُن کی تحریروں میں تاریخ سانس لیتی ہے اور اُن کے تجزیوں میں تجربے کی روشنی جھلکتی ہے۔ وہ اُن چند صحافیوں میں سے ہیں جن کے الفاظ کو مستند مانا جاتا ہے۔
اُن کے بقول پاکستان کے حالات مشکل ضرور ہیں مگر مایوس کن نہیں۔ اگر سیاسی قیادت، ادارے اور عوام ایک صفحے پر آجائیں تو پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کی راہیں زیادہ روشن ہو جائیں گی۔
سلمان غنی کے خیالات میں ایک قومی پیغام پوشیدہ تھا کہ قوموں کی تعمیر سیاست سے نہیں بلکہ بصیرت سے ہوتی ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اختلاف رائے جمہوریت کی علامت ہے مگر افتراقِ دل قومی زوال کی نشانی۔
یہی بات وزیراعظم شہباز شریف کے بیانیے میں بھی جھلکتی ہے۔ وطن سے محبت، امن کی خواہش اور مستقبل پر یقین۔اگر قیادت کا عزم، عوام کا اعتماد اور میڈیا کی دیانت ایک سمت میں چل پڑے تو پاکستان نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر ایک باوقار، مستحکم اور ترقی یافتہ ملک کے طور پر اُبھر سکتا ہے۔
یہی وہ پیغام ہے جو اس ملاقات اور اس کے احوال سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی راہ مشکلات سے ضرور گزرتی ہے، مگر اس کے افق پر امید کی روشنی آج بھی پوری آب و تاب سے چمک رہی ہے۔












